“پاکستانی خود کو بہت چالاک سمجھتے ہیں لیکن ہم ۔۔۔۔۔۔”
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حبیب اکرم اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ کابل میں جس ہوٹل کا ہم نے انتخاب کیا تھا اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر پڑھا تھا کہ فائیو سٹار ہے‘ کسی درجے میں یہ بات درست تھی کہ کمروں کا کرایہ اتنا ہی تھا جتنا پاکستان میں کسی فائیو سٹار ہوٹل کا ہوسکتا ہے
لیکن حالت ایسی کہ ان میں استعمال شدہ برتن رکھے تھے‘ بستر کی چادریں میلی تھیں اورجس کمرے میں میرا قیام تھا وہاں تو ایک عدد چارپائی بھی رکھی تھی۔ کمرہ قطعاً اس قابل نہیں تھا کہ اس کے لیے اتنا کرایہ بھرا جاتا مگررات اتنی ہوچکی تھی کہ کسی دوسرے ہوٹل کی تلاش میں صبح ہوجاتی جبکہ اگلے دن ہمیں کام بھی کرنا تھا۔ اس لیے صبر شکر کرکے وہیں رات گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔اچھے ہوٹلوں میں عام طور پر مہمانوں کے لیے ناشتے کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ میں صبح سویرے اٹھ کر ناشتے کے لیے مخصوص ہال میں پہنچا تو پہلا منظر جو دیکھا وہ یہ تھا کہ دروازے کے عین سامنے سیاہ پگڑیاں پہنے ایک ہی میز کے آر پار دو نوجوان بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے دونوں پاؤں اٹھا کر کرسی پر رکھے تھے اوردونوں نے اپنے ہتھیار میز کے ساتھ ٹکا رکھے تھے ۔ ان دونوں کے اطوار سے جھلکتی بے پروائی اور ہتھیار دیکھ کر خوف کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی۔ میں یہ منظر دیکھ کر ٹھٹکا لیکن اس خوف سے آگے بڑھ گیا کہ جانے کابل میں آج کل خوف کا اظہار بھی جرم ہی نہ بن چکا ہو۔ ان دونوں میں سے کسی ایک نے بھی میری طرف توجہ نہیں کی۔ ہال میں موجود ویٹر میرے پاس آیا اوراُردومیں ناشتے میں موجود چیزوں کی تفصیل بتانے لگا۔ اس کی بتائی ہوئی اشیا میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں تھی جو مجھے پسند ہو مگر ویٹر کی خوش اطواری اچھی لگی۔ اتنی دیر میں کچھ اور لوگ آگئے
جن میں ایک ایسے مولوی صاحب بھی تھے جنہیں استاذ کہہ کر پکارا جا رہا تھا۔ ان کے پاس ہتھیار تو نہیں تھےمگر انداز میں خاص طرح کا تحکم ضرور تھا۔ میں نے اس مہربان ویٹر سے پوچھا کہ ہتھیار بردار کیسے کھانے کے کمرے میں آرہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ ہوٹل سرکاری ملکیت میں ہونے کی وجہ سے پندرہ اگست سے تالبان کے قبضے میں جاچکا ہے اور یہاں ان کے کچھ جید اراکین اور ان کے گارڈ موجود ہیں ۔ اس کی بات سن کرمجھے مزید خوف محسوس ہونے لگا۔ ایمانداری کی بات ہے خود کو تھوڑا سا کوسا بھی کہ آخر کابل آنے کی ضرورت ہی کیا تھی‘ آخر اتنے سارے لوگ بغیر افغانستان آئے بھی تو تبصرے تجزیے کررہے ہیں‘ تم بھی کرتے رہتے تو کیا قیامت آجاتی۔میں نے ابھی ناشتہ ختم بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ٹولی جس کا میں ذکرکررہا ہوں وہ ناشتے کے بغیر ہی نکل گئی اور ان کی جگہ بائیس تئیس برس کا ایک نوجوان آکر بیٹھ گیا۔ اس کے پاس بھی اپنا ہتھیار تھا جو اس نے کرسی کے ساتھ ٹکا رکھی تھی۔ میں نے ہمت کرکے اپنی میز چھوڑی اور اس کے پاس جاکر اردو اور انگریزی میں کچھ بات کرنے کی اجازت چاہی۔ بات شروع ہوئی تو اس کی اردو اور انگریزی دونوں ختم ہوگئیں مگر اتنی دیر میں علی شنواری آن پہنچا تھا۔ بات آگے بڑھی تو پتا چلا کہ اس کا نام نصرت ہے اور یہ کسی مدرسے کے بجائے کابل یونیورسٹی میں صحت عامہ کے شعبے میں آخری سال کا طالب علم ہے۔
میں نے پوچھا: تالبان میں کیسے چلے آئے اور کیا کرتے ہو؟ اس کا کہنا تھا کہ تالبان ہی افغانستان کے اصل وارث ہیں اس لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہر افغان کا فرض ہے۔ دوسرے سوال کا جواب اس نے دیا کہ میں گارڈ سے لے کر اپنے اکابرین کے دفتری کاموں میں مدد تک سبھی کچھ کرتا ہوں۔ میں نے تفصیل چاہی تو اس نے بتایا کہ پندرہ اگست کو جب تالبان شہر میں داخل ہوئے تو اسے بزرگوں کی ایک فہرست دی گئی اور اس ہوٹل کا بتا دیا گیا۔ اس کی ذمہ داری تھی کہ سرکاری ملکیتی ہوٹل پر قبضہ کرتا اور بزرگوں کے ٹھہرنے کا بندوبست کرتا۔ اس نے چند نوجوان ساتھ لیے اور ہوٹل آن پہنچا۔ یہاں کا ساراعملہ فرار ہوچکا تھا۔ اس نے ہوٹل کا استقبالیہ سنبھالا‘ فون ایکسچینج کے تار وغیرہ درست کیے اور اپنے ساتھیوں کو بزرگوں کو لینے کے لیے بھیج دیا۔ یہ بزرگ تشریف لے آئے تو انہیں لانے والے نوجوان ہی ویٹر بن گئے اور وہ خود ہوٹل کا منیجر۔ کئی دن ایسے ہی گزرے اور صرف تین دن پہلے کچھ لوگ کام پر واپس آئے ہیں۔ کابل شہر جانے کے لیے ہماری گاڑی آچکی تھی‘ میں نے اٹھنا چاہا تو اس نے مجھ سے پوچھا: پاکستان میں ہمارے بارے میں کیاسوچا جارہا ہے؟ میں نے کہا :اچھا ہی سوچا جارہا ہے۔ میری بات سن کروہ ہنس پڑا‘ بولا :ہمارے اکابرین کہتے ہیں کہ پاکستان والے بڑے چالاک ہیں۔ پھر اس نے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر کہا: اب ہم بھی بہت چالاک ہوچکے ہیں۔ میں چلنے لگا تو پوچھا:یہ طورخم والا بارڈر کب کھلے گا؟ میں اس سوال پر کچھ حیران ہوا‘ مگر میرے پاس اسے دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا۔