پاکستانی اپوزیشن الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی مخالف کیوں ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمہوریت کا سب سے مقدس و محترم تصور ’’ایک آدمی ایک ووٹ‘‘ کی اکثریت ہے۔ یہ دُنیا کا واحد سیاسی نظام ہے جس میں ہر انسان کی رائے برابر ہے۔ سیالکوٹ موٹر وے پر غلط کاری کے مرتکب سزایافتہ مجرموں،
نور مقدم کے کیس میں قید ظاہر جعفر، فاتر العقل، یادداشت سے محروم بوڑھے، ملک بھر کے قید خانوں میں تختہ دار کی سزاکے منتظر آٹھ ہزار سے زیادہ مجرمین، ٹیکس چوری کرنے کے جرم میں سزایافتہ افراد، ذخیرہ اندوزی میں بار بار پکڑے جانے والے دکاندار، دودھ میں گندے نالوں کا پانی ملانے پر قید کی سزا بھگت کر آنے والے، تعلیمی اداروں سے شرمناک استحصال کے جرم کی پاداش میں نکالے جانے والے اساتذہ، پولیس اور انتظامیہ کی نوکری کے دوران بار بار انکوائریاں بُھگتنے اور سزاوار قرار دیئے جانے والے ملازمین، لوگوں کو بیرونِ ملک لے جانے کا جھانسہ دینے والے ، دھندا کرنے والی طوائفیں اور ان کو اس دھندے پر مجبور کرنے والے دلّال، بچوں کو معذور کر کے یا اٹھا کے بھیک منگوانے کا نیٹ ورک چلانے والے ظالم، کرایہ کش جعلی ادویات بیچنے والے، زمینوں پر غنڈہ گردی سے قبضہ کرنے والے اور اسی قبیل کے لاتعداد افراد جن کی تعداد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں میں بنتی ہے، اس ’’عظیم‘‘ جمہوری نظام میں الیکشن والے دن سب کے سب معزز، محترم اور باوقار ووٹر ہوتے ہیں۔ ان کے ووٹ کے حصول کیلئے لاکھوں جتن کئے جاتے ہیں۔ فاترالعقل بوڑھوں کو کندھوں پر اُٹھا کر لایا جاتا ہے، چاہے ان کی یادداشت کھو چکی ہو، مگر کسی مددگار کے ذریعے بیلٹ پیپر پر مہر لگوا دی جاتی ہے۔ اخباروں کے فوٹو گرافر کندھے پر سوار اس مخبوط الحواس شخص کی تصویریں اُتارتے ہیں اور اگلے دن کے اخباروں میں ’’جمہوری نظام میں عوام کی دلچسپی‘‘ جیسے خوش نما ’’کیپشن‘‘ کے ساتھ یہ تصویر
شائع کر دی جاتی ہیں۔قیدخانوں سزا کاٹنے والے مجرموں کیلئے علیحدہ بوتھ بنائے جاتے ہیں یا انہیں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ سیاستدان ایسے تاجروں کے گروہوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، ان سے ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں جن کے بارے میں انہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ یہ ذخیرہ اندوز ہیں، ملاوٹ کرنے والے ہیں اور ٹیکس چور ہیں۔ زمینوں اور جائدادوں پر قبضہ کرنے والے بدمعاشوں کی تو الیکشن والے دن ’’چھب‘‘ ہی نرالی ہوتی ہے۔ ہزاروں ووٹر ایسے ہوتے ہیں جو ان کے ظلم اور بدمعاشی کے خوف سے ان کی ہدایت کے مطابق ووٹ ڈالتے ہیں۔ یہ سب تو انتخابات کے دن کا غلغلہ ہے۔ جس دن ایک سیاسی اُمیدوار کے نزدیک قابل عزت و تکریم وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ انسانوں کا ایک بڑا ’’ریوڑ‘‘ ہو، خواہ یہ ریوڑ دھونس، خوف، لالچ اور بدمعاشی سے ہی کیوں نہ ’’ہانک‘‘ کر لایا گیا ہو۔ یہ تمام ووٹر آج سے پچاس سال پہلے صندوقچی یعنی بیلٹ باکس کے باہر بنے ہوئے نشان کو دیکھ کر اس بکسے میں اپنا ووٹ ڈالا کرتے تھے۔ الیکشن کروانے والوں کے نزدیک یہ لوگ اس قدر کوڑھ مغز اور جاہل تھے کہ انہیں اس امیدوار کا نام بھی پڑھنا نہیں آتا تھا جسے اپنے مستقبل کے فیصلوں کیلئے منتخب کرنے جا رہے تھے، اسی لئے ان جہلاء کی ’’عظیم‘‘ رائے کا ’’احترام‘‘ کرتے ہوئے اُمیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ کئے جاتے تھے۔ ہر پارٹی ایسے انتخابی نشان کی تگ و دو میں آج بھی رہتی ہے جسے ہر کوئی باآسانی پہچان سکے۔
انتخابی نشانات کا معاملہ صرف پاکستان میں ہی نہیں، بلکہ دُنیا کے ہر ملک میں رائج ہے۔ کیونکہ اٹھارہویں صدی میں جب اس جمہوری نظام کا بیج بویا گیا تھا تو بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواندگی کی شرح بہت کم تھی۔ انتخابی نشان والی صندوقچی کے بعد 1970ء کے الیکشنوں میں لوگوں کو ایک بیلٹ پیپر اور مہر تھما دی گئی جس پر انتخابی نشان چھپے ہوئے تھے اور انہیں کسی ایک نشان کے سامنے والے خانے پر مہر لگانا تھی۔ شروع شروع میں بہت شور مچا کہ اس طریقے سے دھاندلی کا راستہ نکالا جا رہا ہے مگر بعد میں تمام سیاسی پارٹیوں نے اسی ’’تنخواہ‘‘ اور انہی حالات پر سمجھوتہ کر لیا۔ 1970ء اور 1977ء کے الیکشنوں میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں تین دن کا فرق رکھا گیا تاکہ ووٹر ایک ساتھ دو بیلٹ پیپر دیکھ کر اپنی ’’عالیٰ دماغی‘‘ اور ’’قوتِ فیصلہ‘‘ کی وجہ سے پریشان نہ ہو جائیں۔پھر دونوں الیکشن ایک ہی دن کروائے جانے لگے۔ پاکستان میں اس وقت 18 کروڑ دس لاکھ موبائل فون کنکشن ہیں۔ ایک سے زیادہ فون رکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیکن اگر زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کی تعداد تین کروڑ بھی لگا دی جائے تو پھر بھی پندرہ کروڑ افراد کے پاس موبائل فون ہے اور وہ اس سے نمبر ڈائل کرتے، کال وصول کرتے، میسج کرتے اور میسج پڑھتے ہیں۔ ان تمام افراد کو آج سے چند سال پہلے اپنے فون کی بائیو میٹرک کروانے کیلئے کہا گیا تھا۔ گلی محلے کی دُکانوں پر یہ مشینیں لگ گئی تھیں
اور لوگ بلا خوف اپنا فون رجسٹرڈ کروا رہے تھے اور آج بھی کرواتے ہیں۔ سب کو اس بات کا شعور ہے اور وہ اس بات کی یقین دہانی کرواتے ہیں کہ کہیں ان کا فون کسی اور کے نام پر نہ چڑھا دیا جائے۔ لیکن پاکستانی جمہوریت میں چونکہ ووٹ کی ’’حیثیت‘‘، ’’اوقات‘‘ اور ’’حُرمت‘‘ ایک سادہ سے موبائل فون کی قیمت سے بھی کم ہے اس لئے ہر الیکشن سے پہلے شور برپا ہوتا ہے کہ ان کا ووٹ چُرا لیا جائے گا، کسی اور کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا۔ پاکستان میں ووٹروں کی تعداد دس کروڑ پانچ لاکھ ہے، یعنی موبائل فون کنکشنوں سے آٹھ کروڑ کم۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ کبھی بھی پچاس فیصد یعنی پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ ووٹ ڈالنے باہر نہیں نکلے۔ اگر ایک سروے کروایا جائے کہ اس ’’جمہوری نظام‘‘ میں ووٹ ڈالنے والوں کا تعلیمی معیار کیا تھا، تو یقیناً سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے سب سے کم لوگ ایسے ہوں گے جو ووٹ ڈالنے نکلتے ہوں گے۔ یہ پاکستان کی اس پڑھی لکھی اقلیت کا خاموش احتجاج ہے، جو یقیناً اس موازنے سے نفرت کرتے ہیں کہ ایک آکسفورڈ کے ڈاکٹر، تہجد گزار عابد و زاہد عالم، دلوں پر راج کرنے والے ادیب و شاعر جیسے افراد جو معاشرے کے جھومر ہیں، ان کا ووٹ اور سو بچوں کے مجرم جاوید اقبال کے ووٹ کی اہمیت، اوقات اور حیثیت میں کوئی فرق نہیں۔ اس ’’عوامی ذِلّت‘‘ سے بچنے کیلئے پڑھے لکھے شرفاء اور نیک افراد گھر
میں بیٹھے رہتے ہیں اور اس ’’گناہ‘‘ میں شریک نہیں ہوتے۔ ہر وہ سیاستدان جو جمہوری سیاست کا دیوانہ و فرزانہ ہے، بخوبی جانتا ہے کہ دھاندلی، صرف الیکشن والے دن ہی نہیں ہوتی، بلکہ الیکشن والے دن تو سب سے کم دھاندلی ہوتی ہے کیونکہ معاملہ کروڑوں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ دھاندلی تو ایک مسلسل عمل ہے۔ ذخیرہ اندوز گروہوں کے مطالبات مانے جاتے ہیں، مجرموں ، چوروں کے کیس ختم کروائے جاتے ہیں، بددیانت ٹھیکیداروں کو ٹھیکے دیئے جاتے ہیں، سفارشوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں، مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے جاتے ہیں، انہیں مسلسل ڈرا کر خوفزدہ کیا جاتا ہے، برادری، قبیلہ اور نسل کے تعصب کو ہوا دی جاتی ہے، لوگوں کی زمینوں پر قبضے کروائے جاتے ہیں۔ یہ مسلسل عمل پورے پانچ سال چلتا رہتا ہے۔ ان تمام ناجائز طریقوں، دھونس، دھاندلی اور لالچ سے جب ایک جمِ غفیر اپنے ساتھ کر لیا جاتا ہے تو پھر الیکشن کے میدان میں اُترا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اور اتنی پیش بندی کے باوصف بھی ہمارے جمہوری رہنمائوں کو الیکشن کے دن بھی دھاندلی چاہئے اور خوب چاہئے۔ جس جمہوری نظام کی بنیاد یہ ہو کہ نیک اور بد، عالم اور جاہل، بدمعاش اور شریف سب کے سب رائے میں برابر ہیں، وہاں یہ سب چلتا ہے اور چلتا ہی رہے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ملک کا ہر سیاستدان اپنی شکست کو الیکشن میں بدترین دھاندلی، مقتدر قوتوں کی مداخلت اور اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نام لگاتا رہے گا۔