دبئی میں مقیم پاکستانی نوجوان راتوں رات کروڑ پتی بن گیا ،
دبئی میں مقیم پاکستانی نوجوان راتوں رات کروڑ پتی بن گیا ،
پاکستانی شہری جنید اپنی والدہ کو ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ایک دن بڑے ہوکر وہ غیر معمولی رقم کے مالک بنیں گے، اس کے بعد 36 سال کی عمر میں انہوں نے 48ویں ہفتہ وار براہ راست ’محظوظ قرعہ اندازی‘
میں 5 کروڑ درہم مالیت کا انعام جیتے اور پلک جھپکتے ہی کروڑ پتی بن گئے۔ اپنے وعدہ کے مطابق پہلی بار محظوظ گرینڈ پرائز انعام جیتنے والے جنید کی عرب امارات اور جی سی سی ممالک میں براہ راست قرعہ اندازی میں اب تک کا سب سے بڑا کیش انعام حاصل کرنے کی تاریخی جیت کے ساتھ ایک غیر معمولی کہانی بھی ہے۔دبئی میں بطور کمپنی ڈرائیور کام کرنے
والے جنید کا اپنی زندگی بدل دینے والی خوش قسمتی کے واقعات کے تسلسل سے متعلق کہنا ہے کہ ’’وہ عام طور پر تنخواہ ملنے پر محظوظ میں شرکت کرتے ہیں، تاہم اس ماہ عام تعطیل کے باعث ان کی تنخواہ میں ایک دن کی تاخیر ہوئی اور یہ انہیں اس دن ملی جس روز محظوظ کی قرعہ اندازی ہونا تھی۔ ہفتہ کی شام اشیائے خورونوش کی خریداری کے لیے
اے ٹی ایم سے رقم نکلوانے کے لیے کار سے باہر قدم نکالنے کے بجائے جنید کار میں ہی بیٹھے رہے، انہوں نے محظوظ ایپ کھولی اور محض ایک خیال کی بنیاد پر اس میں حصہ لینے کی ٹھانی۔اس سے متعلق جنید کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت میرے اندر سے ایک آواز آئی کہ اسنیکس سے بہتر محظوظ میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ میں نے قرعہ اندازی کے لیے محض دو گھنٹے
قبل 6 بےترتیب ہندسوں پر کلک کردیا۔‘‘جن چھ بےترتیب ہندسوں نے اگلی صبح بیدار ہونے پر جنید کو کروڑ پتی بنادیا وہ 46,33,32,21,11,6 تھے۔ جیند کا کہنا ہے کہ جب انہیں اپنی جیت کا علم ہوا تو انہیں محسوس ہوا کہ جیسے زمین ان کے قدموں سے نکل گئی ہے۔اگرچہ محظوظ میں حصہ لینے والے تمام افراد آخری
گیارہ ماہ کے تمام دن یہی خواب دیکھتے ہوئے گذارتے ہیں کہ وہ اگر لاکھوں جیت گئے تو کیا کریں گے، تاہم بطور کروڑ پتی بھی جنید کا پہلا روز دیگر عام دنوں کی طرح ہی رہا۔ جنید کا کہنا ہے کہ اس روز واحد غیر معمولی کام جو انہوں نے کیا، وہ یہ تھا کہ جب وہ حجامت کے لیے اپنے ہیر ڈریسر کے پاس گئے تو انہوں نے اُسے اُس کی شادی کے اخراجات اٹھانے کی پیشکش کی۔جنید کی سخاوت کا اندازہ اس کے بچپن سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ مالی مشکلات سے گھرا ہوا تھا۔ جنید کا کہنا ہے کہ ان کے والد کے کڑھائی اور ٹیلرنگ کے چھوٹے سے کاروبار سے ان کی اور ان کے بہن بھائیوں کی اسکول فیسیں بمشکل ادا ہو پاتی تھیں۔ جنید کو نویں کلاس کے بعد پڑھائی کو خیر آباد کہنا پڑا اور انہوں نے اپنے والد کا ہاتھ بٹانے کیلئے پروموشن اور سیلز کی چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں۔ اس کے بعد وہ پاکستان واپس منتقل ہوگئے اور وہاں ان کے والد گردے فیل ہوجانے کے باعث انتقال کر گئے، اس وقت جنید کی عمر محض 18 برس تھی۔ جنید کا خیال ہے کہ اگر اس وقت کوئی ان کی مدد کرتا تو شاید ان کے والد کی زندگی بچائی جاسکتی تھی۔اجنبیوں کی مدد کرنے کے علاوہ، جنید انعامی رقم سے اپنے قرضوں کی ادائیگی اور اپنے تمام بہن بھائیوں کے لیے پاکستان میں مکان کی تعمیر کی خواہش رکھتے ہیں۔جنید کا کہنا ہے کہ ان کا ہمیشہ سے ہی سب سے بڑا خواب رہا ہے کہ ایک وسیع و عریض حویلی
بنائیں، جہاں ان کے اور ان کے بہن بھائیوں کے اہل خانہ اپنی والدہ کے ساتھ مل جل کر رہیں، دو بچوں کے باپ اور عنقریب تیسری ولادت کی توقع رکھے ہوئے جنید کا کہنا ہے کہ مگر اب محظوظ کی مہربانی سے ان کا خواب پورا ہوسکتا ہے کیونکہ اب وہ اس کی استطاعت رکھتے ہیں، محظوظ کی بدولت اب وہ اپنے بکھرے ہوئے خوابوں کو سمیٹ سکتے ہیں اور انہیں ایک حیرت انگیز نئی حقیقت میں ڈھال سکتے ہیں۔یہاں تک کہ کروڑوں درہم کی دولت حاصل کرنے سے قبل بھی جنید گمنام طریقے سے اپنے نادار ساتھیوں کے کھانے کا بل بھی ادا کرتے رہے ہیں۔جنید کے پاس جیتنے والے ہندسوں کے انتخاب کے لیے کسی قسم کا جادوئی فارمولا نہ تھا، وہ اس جیت کا سہرا اپنے والدین کی دعاؤں کو قرار دیتے ہیں۔جنید کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتے کہ آخر کے دو گھنٹوں میں انہوں نے اس میں شرکت کا کیوں سوچا؟ ان کا کہنا ہے کہ 5 کروڑ درہم کی خطیر رقم اس دنیا میں ان کا ہر ایک خواب پورا کرنے کی طاقت رکھتی ہے، مگر یہ خطیر رقم ان کے مرحوم والد کو واپس نہیں لاسکتی، لیکن وہ اپنی والدہ، بہن بھائیوں، اپنے پیاروں اور حتیٰ کہ اجنبیوں تک کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔جنید کے پاس کروڑ پتی بننے کے خواہشمندوں کے لیے ایک مشورہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خوابوں کو ظاہر کیا اور وہ لوگوں سے یہی کہیں گے کہ کبھی بھی خواب دیکھنا بند نہ کریں، خوابوں کے سچ ہونے کا ایک طریقہ ہے کہ آپ ان پر اٹل یقین رکھیں اور ہمیشہ اچھے کام کرتے رہیں۔ جو آپ سوچتے ہیں، وہی آپ کے پاس آتا ہے اور ان کے کیس میں یہی ہوا اور وہ 5 کروڑ درہم کا انعام جیتنے میں کامیاب رہے۔