وہ وقت جب سزائے موت کے ایک قیدی نے آخری خواہش کے طور پر محمد رفیع کا گانا سننے کی فرمائش کی ۔۔۔جیلوں اور قیدیوں کی تاریخ کا سچا واقعہ
برصغیر کے عظیم گلوکار اور موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمد رفیع گائیکی ایک ایسا ہنر لے کر پیدا ہوئے تھے جو قدرت کسی کسی کو عطا کرتی ہے،
یقین کرنا مشکل ہو مگر ایک بار تو سزائے موت کے ایک قیدی کی آخری خواہش بھی ان کا ایک گانا سننا تھا۔ فلم بیجو باورا‘ کا گانا ’او دنیا کے رکھوالے‘ جسے شکیل بدایونی نے تحریر کیا تھاجبکہ موسیقار نوشاد علی نے
کمپوز کیا۔موسیقار نوشاد اکثر محمد رفیع کے متعلق دلچسپ قصہ سناتے تھے کہ ایک مرتبہ ایک مجرم کو تختہ دار کی سزا دی جا رہی تھی، اس سے جب اس کی آخری خواہش پوچھی گئی
تو اس نے نہ تو اپنے خاندان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی کسی خاص کھانے کی فرمائش کی مگر جب اس نے خواہش ظاہر کی تو قید خانے کے ملازمین تک حیران رہ گئے۔ نوشاد بتاتے تھے کہ ’سزا پانے والے نے کہا کہ وہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے محمد رفیع کا فلم ’بیجو باورا‘ کے لیے گایا گیا گانا ’او دنیا کے رکھوالے’ سننا چاہتا ہے۔مجرم کی اس خواہش پر ایک ٹیپ ریکارڈر لایا گیا اوراس کے لیے وہ گیت بجایا گیا۔
اس طرح کا دوسرا کوئی واقعہ شاید ہی کہیں اور درج ہو۔تاریخ بتاتی ہے کہ عظیم گلوکار محمد رفیع نے اپنی پہلیعوامی پرفارمنس محض 13 سال کی عمر میں لاہور میں دی تھی۔ 1947 میں انہوں نے بحیثیت ’پلے بیک‘ سنگرکے طورپر فلمی کیریئر کا آغاز زینت بیگم کے ساتھ فلم ’گل بلوچ‘ کے ایک ’ڈوئیٹ‘ سے کیا تھا۔