میرے بچو یہ مت کرو، اللہ منع کرتا ہے ۔۔ لیبیا کے صدر کے آخری الفاظ کیا تھے؟ جانیں مسلم امہ کی مشہور شخصیت معمر قدافی آخری وقت میں کیوں تکلیف
دنیا میں ایسی کئی شخصیات ہیں، جو کہ سرحدوں کیا بلکہ سمندر پار بھی مشہور ہو جاتی ہیں، ایسی ہی ایک شخصیت تھی معمر قدافی کی۔اس خبر میں آپ کو انہی سے متعلق معلومات فراہم کریں گے۔لیبیا کے صدر اور اننقلابی لیڈر معمر قدافی نے دنیا بھر میں اور خاص کر مسلم امہ میں سب کی توجہ حاصل کی تھی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ
قدافی کا نظریہ کئی ممالک کو کھٹکتا تھا۔دراصل معمر قدافی کا تعلق آرمی سے تھا اور انہوں نے 1969 میں حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار کو سنبھال لیا تھا، اور پھر 1970 میں قدافی ایک جوان آرمی آفیسر کے طور پر سامنے آئے۔اگرچہ معمر قدافنی باصلاحیت، ہوشیار اور قابل شخصیت کا مالک تھا تاہم مکمل تعلیم کا زیور نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آئیں تاہم قدافی قرآن مجید کو پڑھتے اور سمجھتے تھے، ساتھ ہی آرمی ٹریننگ نے بھی ان کی مدد کی۔لیبیاء میں 1950 میں پیٹرول کے ذخائر دریافت ہوئے تھے
جن پر عالمی پیٹرولیم کمپنیوں کا قبضہ تھا، تاہم مذکورہ کمپنیوں کی پالیسیاں معمر قدافی کو کھٹک رہی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مذاکرات کرنے اور کانٹریکٹ پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر آئل کی فراہمی بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔جس کے بعد عالمی کمپنیوں نے معمر قدافی کی اس بات کو مان ہی لیا، بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لیبیا پہلا ملک بن گیا جو اپنے ہی ذخائر میں بڑا شئیر ہولڈر بن کر ابھرا، جس کے بعد دیگر ممالک بھی لیبیا کے نقش قدم پر چلے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ قدافی نے اپنی عوام پر چند ایسی چیزوں پر رعایت دی تھی جو کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی دلچسپ تھیں، جیسے کہ نئے شادی شدہ جوڑے کو اُس وقت کے حساب سے 50 ہزار ڈالڑز دئے جائیں گے، عوام کی تعلیم اور میڈیکل کی سہولیات مکمل طور پر مفت،
دنیا کا سب سے بڑا زرعی نظام لانا، لیبیا ان کے دور میں بیرونی قرضوں سے آزاد تھا، جبکہ 150 بلین ڈالرز کے اثاثے موجود تھے۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اسی دور میں صنفی مساوات، ہر شہری کو گھر کی سہولت کو انسانی حقوق میں شامل کیا گیا تھا۔ اُن دنوں لیبیا ان ممالک میں شامل تھا جہاں صحت، تعلیم اور معمولات زندگی کے حوالے سے اچھے ممالک میں شمار ہو رہا تھا۔ جبکہ ہر انسان کو کھانے تک رسائی آسانی بنائی گئی تھی، ان سب کے بعد کئی حلقے یہ بھی تجزیہ پیش کرتے ہیں کہ لیبیا میں اُس دور کے بعد ایک بھیانک دور کا آغاز ہوا۔لیبیا میں اگر کوئی ذرعات کو اپنا پیشہ بنانا چاہتا تو اسے بھی اسے زمین، گھر، آلات، جانور اور بیج بھی
مہیا کیے جاتے تھے وہ بھی بالکل مفت۔ واضح رہے معمر قدافی کو نماز کی امامت کرانے کا بھی شوق تھا، جبکہ لاہور میں ہونے والے اسلامک سمٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے بھی آئے تھے۔جبکہ سابق امریکی خارجہ کا بیان بھی کافی چرچہ میں ہے، جس میں انہوں نے کہ ہم آئے، ہم نے دیکھا اور وہ مر گئے، اسی دوران ہلیری کے چہرے پر مسکراہٹ بھی تھی۔عالمی ویب سائٹس کے مطابق فرانس کو معاشی طور پر لیبیا سے خطرہ تھا، جبکہ امریکہ ڈالر میں خریدا جانے والا آئل بھی قدافی نے دیگر کرنسی میں بیچنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جبکہ ورلڈ بینک طرز کا ایک بینک لیبیا میں قائم کرنا چاہتے تھے جس سے وہ پورے افریقہ کی مدد کر سکتے
۔تاہم عالمی قووتوں کو یہ آئیڈیا اتنا ناگوار گزرا کہ پھر ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی خبریں عالمی میڈیا پر نمایاں ہو گئیں، یہاں تک کہ یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ عوام معمر قدافی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔اور پھر 2011 میں باغیوں نے معمر قدافی کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا، جہاں ان کا چہرا لہو لہان تھا وہیں ان کی آنکھیں اس سب منظر کو قید کر رہی تھیں اور دیکھ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔معمر قدافی آخری وقت میں موت سے پہلے اپنے اوپر حاوی ہونے والوں سے کہتے رہے کہ اللہ اس عمل کو پسند نہیں کرتا ہے، میرے بچوں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم ہے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔