فرعونیت کی انتہا: لرزا دینے والے حقائق
میگزین
لاہور (ویب ڈیسک) بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔صدام حسین نے اپنی فرعونیت میں اپنے دونوں دامادوں تک کو زندگی سے محروم کروا دیا تھا جو کہ اس سے بھاگ کر کہیں اور اپنے بال بچوں کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ان دونوں کا جرم یہ تھا کہ صدام حسین کے بڑے بیٹے
اودے کو یہ پسند نہیں تھے اور اس کو ان پر شک تھا۔ جب پہلی خلیجی لڑائی کے کچھ سال بعد 1995 میں دونوں اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ بھاگ کر اردن چلے گئے اور پناہ کی درخواست کی تو صدام سے یہ برداشت نہ ہو سکا۔اس نے انھیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیٹیوں کو فون کر کے اور درمیان میں لوگوں کو ڈال کر انھیں یقین دلایا کہ سب واپس آ جائیں۔ انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور معاف کر دیا جائے گا۔ چھ ماہ اردن میں رہنے کے بعد پورا خاندان واپس عراق آ گیا۔صرف دو دن بعد دونوں کو ایک سپیشل سکواڈ کے ذریعے زندگی سے محروم کر دیا گیا اور ان کے بے جان اجسام کو ایک گاڑی کے ساتھ باندھ کر پورے شہر میں گھمایا گیا۔ یہ ان سب کے لیے پیغام تھا جو سمجھتے تھے کہ صدام کمزور ہو گئے ہیں۔
صدام حسین کل 24 سال عراق کے صدر رہے اور اتنے لمبے عرصے تک اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے انھوں نے کسی بھی ایسے حربے سے پرہیز نہیں کیا جس سے نا صرف ان کے مخالف صفہ ہستی سے مٹ جائیں بلکہ مستقبل میں ایسا سوچنے والوں کے دل میں شدید ڈر پیدا ہو جائے اور وہ انجام سے لرز جائیں۔اس کی ایک اور مثال سابق عراقی وزیرِ اعظم عبدالرزاق سیعد النائف کی ہے۔ جب ان 1968 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو وہ بھاگ کر لندن چلے گئے۔صدام نے ایجنٹوں کا ایک گروہ انھیں ختم کرنے کے لیے لندن بھیجا۔ ان پر اٹیک کیا گیا جس میں وہ تو بچ گئے لیکن ان کی بیوی زخمی ہو گئیں۔ پر صدام حسین نے انھیں ختم کیے بغیر دم نہیں لیا اور 9 جولائی 1978 کو لندن کے پارک لین کے علاقے میں انھیں زندگی سے محروم کر دیا گیا