in

ہالی وڈ میں جگہ بنانے کے لیے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی صاحبزادی لاریب عطا کو کیا پاپڑ بیلنے پڑے ؟ حیران کن حقائق

ہالی وڈ میں جگہ بنانے کے لیے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی صاحبزادی لاریب عطا کو کیا پاپڑ بیلنے پڑے ؟ حیران کن حقائق

ہالی وڈ میں جگہ بنانے کے لیے عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی صاحبزادی لاریب عطا کو کیا پاپڑ بیلنے پڑے ؟ حیران کن حقائق

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان کے معروف گلوکار عطا اللّٰہ خان عیسیٰ خیلوی کی بیٹی، پاکستانی ویژیول آرٹسٹ لاریب عطا نے ہالی ووڈ میں نمایاں مقام حاصل کرکے نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا ہے۔لاریب عطا نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں بطور ویژیول آرٹسٹ اپنے کیریئر کے

بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے لندن جانا میرے لیے کبھی بھی آسان نہیں تھا، بہت سارے چیلنجز تھے، میں نے نہ صرف ان چیلنجز کا سامنا کیا بلکہ ان پر قابو پانے کے لیے انتھک محنت کی۔اُنہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آج میں دنیا کی ان چند خواتین میں سے ایک ہوں جو کہ ویژیول ایفیکٹس کے شعبے میں کام کر رہی ہیں جبکہ پاکستان سے شاید میں پہلی خاتون ہوں جو کہ ویژیول آرٹسٹ ہے۔اُنہوں نے کہا کہ میں اور میری ٹیم پاکستانی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کروا رہے ہیں، بچے اس بات کے پابند نہیں ہیں کہ جو ان کے والدین نے کیا وہ بھی وہی کریں گے۔لاریب عطا نے بتایا کہ میں بچپن سے ہی کھلونوں کی کہانیوں اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتی ہوں۔

اُنہوں نے مزید بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ جب میں 19 سال کی عمر میں لندن گئی تو میرے بھائی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ویژیول ایفیکٹس کا کورس کروں، مجھے بھائی کا آئیڈیا پسند آیا کیونکہ یہی میں خود بھی کرنا چاہتی تھی اور اب مجھے لگتا ہے کہ میں اس میں کامیاب ہو گئی ہوں۔لاریب نے کام کے دوران شادی اور پھر ماں بننے کے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شادی کے بعد کچھ عرصہ کام سے بریک لینے کی وجہ سے ان کے انڈسٹری میں رابطے منقطع ہوگئے تھے اور میں کچھ عرصہ برطانیہ سے باہر بھی رہی لہٰذا جب میں لندن واپس آئی تو مجھے کام نہیں ملا۔اُنہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مجھے نوکری حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی، میں نے لوگوں سے رابطے قائم کرنے کی کوشش کی

۔اُنہوں نے کہا کہ کام حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنے کمفرٹ زون کو مکمل طور پر چھوڑنا پڑتا ہے۔لاریب عطا نے بتایا کہ میں اپنے شاندار ماضی کے باوجود روزانہ اپنے کام کو بے کار کر رہی تھی۔اُنہوں نے کہا کہ میں مایوس نہیں ہوتی، اگر میں ناکام ہوئی تو دوبارہ کام شروع کروں گی، میں جانتی تھی کہ ہر ناکامی کے بعد کامیابی کا دروازہ کُھلتا ہے۔اُنہوں نے مزید بتایا کہ اس دوران میری ملاقات ایک خاتون پروڈیوسر سے ہوئی جن کی کمپنی نے کئی آسکر ایوارڈز جیتے تھے، میں نے اُنہیں ایک میٹنگ میں بتایا کہ مجھے نوکری کی تلاش ہے، جس پر اُنہوں نے مجھے ایک رسمی درخواست بھیجنے کو کہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ درخواست بھیجنے پر اگر مجھے شارٹ لسٹ کیا گیا تو کال آجائے گی۔‘اُنہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں پہلے ہی بہت جگہوں پر درخواست بھیج چکی تھی لیکن مجھے کہیں سے بھی کال نہیں آئی تھی، اس لیے میں نےاس موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے خاتون پروڈیوسر کو اپنے کام کے حوالے سے بتانا شروع کردیا۔

اُنہوں نے بتایا کہ میں نے خاتون پروڈیوسر کو یہ بھی بتایا کہ میں ایک ماں ہوں اور میں نے کچھ وقت کے لیے کام سے بریک لیا تھا اور اب میں خود کو دوبارہ دنیا کے سامنےثابت کرنا چاہتی ہوں تو اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اُنہیں اپنی سی وی (CV) فوراً بھیجوں اور پھر کچھ دنوں بعد، مجھے ان کی جانب سے کال آگئی۔خیال رہے کہ لاریب عطا اس وقت لندن میں مقیم ہیں، اور جارج لوکاس کمپنی سے وابستہ ہیں۔لاریب عطا 2006 سے لیکر اب تک کئی مشہور اشتہارات اور ٹیلی وژن سیریز میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکی ہیں۔اس کے علاوہ ہالی ووڈ فلم’گوڈزیلا‘، ’ایکس مین ڈیز آف دا فیوچر پاسٹ‘، ’مشن امپاسبل: فال آؤٹ ‘اور ’نو ٹائم ٹو ڈائی‘کے لیے بھی کام کرچکی ہیں۔یہی نہیں جیمز بانڈ سیریز کی فلم ’نو ٹائم ٹو ڈائی‘ کے لیے لاریب عطا کی ٹیم کو اکیڈمی ایوارڈز اور بافٹا ایوارڈز 2022 کے لیے’بہترین اسپیشل ویژیول ایفیکٹس‘ کی کیٹیگری میں نامزد بھی کیا گیاتھا۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

شادی سے 3 سال قبل والد کا انتقال !! ثانیہ عاش کون ہیں؟ میڈیکل کی طالبہ سیاست میں کیسے آئی؟ جانیئے وہ باتیں جو کوئی نہیں جانتا تھا

وہی ہوا جس کا ڈر تھا!!!! پاکستان عوامی تحریک کا سڑکوں پر آنے کا فیصلہ