کینیڈا میں تعلیم کے لیے جانے والا نوجوان والدین کو ہمیشہ کا دکھ دے گیا
ہمیشہ سے بڑے بزرگوں کی یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ کسی کو جوان اولاد کا دکھ نہ دے۔ اس دعا کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب انسان کی اولاد جوان ہو جاتی ہے تو اس کی ہمت اور توانائی کم ہوجاتی ہے اور وہ اس بات کی امید لگا لیتا ہے کہ اب اس کی یہ جوان اولاد ہی ان کی ہمت اور سہارا بنے گی۔ اور اگر بدقسمتی سے اکلوتے جوان بیٹے کی موت کی خبر والدین کو مل جائے تو یہ پل ان کے لیے قیامت سے کم نہیں ہوتا ہے-
سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ہیومن آف بمبئی سے ایک دکھی باپ نے یہ کہانی شئير کی ہے جس کو پڑھ کر ہر ایک کا دل دکھی ہو گیا- ان کا کہنا تھا ان کا اکیس سالہ بیٹا کارتک ایک ایسا مثالی نوجوان تھا جس کی تعریف اس کے ساتھی اس کے ٹیچر سب ہی کرتے تھے۔ ہر طرح کے لڑائی جھگڑوں سے کترانے والا کارتک ایک بہترین طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ فرمانبردار بیٹا تھا- وہ ان کے لیے بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا دوست بھی تھا-
جب اس نے اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے اس کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے فوراً انتظام کرنے شروع کر دیے جب کہ دوسری جانب کارتک نے بھی کینیڈا کی اپنی پسندیدہ یونی ورسٹی مین ٹیسٹ کی تیاری شروع کر دی اور تین مہینے قبل کارتک کا داخلہ کینڈا کی یونی ورسٹی میں ہو گیا-
جب کارتک کو وہ ائیر پورٹ چھوڑنے گئے تو کارتک بہت خوش تھا وہ اپنے نئے سفر اور نئی منزلوں کے لیے بہت پرجوش تھا جب کہ وہ اور ان کی بیوی یہی سوچ رہے تھے کہ کارتک کے جانے کے بعد ان کے دن رات کیسے کٹیں گے- مگر کارتک کو جاتے جاتے وہ بس اتنا ہی کہہ سکے کہ بس اپنا دھیان رکھنا-
کارتک کے جانے کے بعد ان کے گھر کے شب و روز اس کے بغیر بہت اداس سے ہو گئے مگر کارتک کی ویڈیو کالز اور اس کی بھیجی ہوئی تصاویر ان کے اندر زندگی سی دوڑا دیتی تھیں۔ اس دن کارتک نے ان کو یہ خوشخبری سنائی کہ اس کو پارٹ ٹائم کام کرنے کی بھی اجازت مل گئی ہے اور اب وہ پڑھائی کے ساتھ کام بھی کر سکے گا-
اس دن صبح ناشتہ بناتے ہوئے جب کارتک نے ویڈیو کال کی تو وہ اپنے لیے اسٹرابیری کا شیک بنا رہا تھا جس کو دیکھ کر انہوں نے اس کو چھیڑا کہ تم کینیڈا آکر بھی روح افزا پی رہے ہو- ان کی اس بات پر کارتک بہت ہنسا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ کارتک کی آخری ہنسی ہے جس کو وہ دیکھ رہے ہیں-
اسی شام انہیں کارتک کے فلیٹ میٹ کی طرف سے ایک فون کال موصول ہوئی کہ کارتک سے رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے اور وہ اپنی جاب پر بھی نہیں پہنچا ہے- جس پر انہوں نے اس کو پولیس سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا-
دو گھنٹوں تک اپنے کمرے میں ہی بغیر کسی کو بتائے انتطار کرنے کے بعد ان کو کینیڈا سے ایک فون کال موصول ہوئی جس میں ان کو بتایا گیا کہ ان کے اکیس سالہ جوان بیٹے کو کسی نے گولی مار کر قتل کر دیا ہے-
ان کے لیے یہ خبر قیامت سے کم نہ تھی ان کا بیٹا تو کسی سے بھی نہیں لڑتا تھا پھر ایسا کون ظالم تھا جس نے ان کی بڑھاپے کی امید اور چراغ کو بجھا کر ان کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ کینیڈا کی پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے کارتک کے قتل کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے اب تک اس کے ماں باپ اپنے لعل کو نہیں دیکھ سکے ہیں- وہ کینیڈا جانے کی تیاری کر رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آرہا ہے کہ جس بیٹے کو انہوں نے تھام کر سائیکل چلانا سکھائی تھی اس کی چتا کو آگ کیسے لگا پائيں گے-
ان کی اب یہی خواہش ہے کہ بیٹے کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکیں اور اسے سلاخوں کے پیچھے دیکھ سکیں-