”حضورپاک ﷺ نے فرمایا بد نصیب ہے وہ شخص جو والدین کی خدمت کرکے ان کی دعا نہیں لیتا“
ماں باپ كے ساتھ حسن سلوک، خدمت گزاری اور اطاعت و فرماں برداری اولاد کی اولین ذمہ داری ہے- انسان اپنے ماں باپ کی چاہے کتنی ہی خدمت کر لے مگر وہ انکا بدلہ اتار ہی نہیں سکتا۔ سعادت مندی کی بات یہ ہے کہ اولاد والدین کی خدمت کرتی رہے اور اسے اپنی خوش
ماں باپ كے ساتھ حسن سلوک، خدمت گزاری اور اطاعت و فرماں برداری اولاد کی اولین ذمہ داری ہے- انسان اپنے ماں باپ کی چاہے کتنی ہی خدمت کر لے مگر وہ انکا بدلہ اتار ہی نہیں سکتا۔ سعادت مندی کی بات یہ ہے کہ اولاد والدین کی خدمت
کرتی رہے اور اسے اپنی خوش قسمتی اور سعادت سمجھے اور اللہ کا شکر ادا کرتا رہے۔اللہ تعالی نے انسان کو وجود بخشا اور والدین کو اس کے وجود کا ظاہری ذریعہ بنایا اور والدین کو رحمت و شفقت کا مظہر بناکر اولاد کی صحیح تربیت کرنا ان کے ذمہ کردیا-
حقوق والدین کی بابت تاکیدی حکم کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ خالق کائنات نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں اپنی عبادت و بندگی کے حکم کے فورا بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے-چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا –ترجمہ: اور تمہارے رب نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ تماس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو(سورۂ بنی اسرائیل: 23)اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَاعبدواللہ ولا تشرکو ا بہ شیٔاً وبالوالدین احسانااللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (اپنے)والدین سے احسان (نیک سلوک) کرو.(النساء:۳۶)ارشاد باری تعالیٰ ہے: ووصیناالإنسان بوالدیہ احسانااور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھاحسان (نیک سلوک) کا حکم دیا ہے.(العنکبوت:۸)سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کون سا کام سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟فرمایا: نماز اپنے (اول) وقت پر پڑھنا.(میں نے)پوچھا: پھر کون سا عمل (پسندیدہ) ہے ؟ فرمایا: والدین سے نیکی کرنا،پوچھا: پھر کیا ہے؟فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا (صحیح البخاری: ۵۲۷و صحیح مسلم:۸۵)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس لک بہ علم فلا تطعھما وسا حبھما فی الدنیا معروفا.اگر وہ(تیرے والدین) میرے ساتھ شرک کرنے کے لئے جس کا تیرے پاس علم نہیں تجھے مجبور کریں، تو ان کی اطاعت نہ کر اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہ۔ (لقمان:۱۵)اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے:۱: شرک کرنا حرام ہے۔۲
: اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی میں والدین کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔۳: جو بات کتاب و سنت کے خلاف نہیں ہے اُس میں والدین کی اطاعت کرنی چاہیئے۔نبی ﷺ نے عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما کو حکم دیا تھا کہ :‘‘اطع أباک مادام حیاً ولا تعصہ’’جب تک تمہارا باپ زندہ ہے اُس کی اطاعت کرو اور اُس کی نافرمانی نہ کرنا.(مسند احمد ۲؍۱۲۵ح ۲۵۳۸و سندہ صحیح)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘لاطاعۃ فی معصیۃ اللہ، إنما الطاعۃ فی المعروف’’اللہ کی نافرمانی میں (کسی کی ) کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو معروف (کتاب و سنت کے مطابق) میں ہے.(صحیح مسلم : ۸۴۰ادار السلام: ۴۷۶۵و صحیح البخاری: ۷۲۵۷)ایک روایت میں آیا ہے کہ: ‘‘ رضی الرب فی رضی الوالدو وسخط الرب فی سخط الوالد’’رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی، والد کی ناراضی میں ہے.( الترمذی: ۱۸۹۹ و سندہ صحیح)ایک آدمی نے رسول ﷺ سے پوچھا کہ: میں کس کے ساتھ اچھا برتاؤ کروں؟ فرمایا: اپنی ماں کےساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ فرمایا:
اپنی ماں کے ساتھ، اس نے پوچھا: پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا: پھر اپنے باپ کے ساتھ.(صحیح البخاری: ۵۹۷۱و صحیح مسلم:۲۵۴۸)جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ :‘‘فالزمھافإن الجنۃ تحت رجلیھا’’پس اپنی ماں کی خدمت لازم پکڑو، کیونکہ جنت اُن کے قدموں کے نیچے ہے.(سنن النسائی ۶؍۱۱ح۳۱۰۶و اسنادہ صحیح)ماں باپ کی، معروف (کتاب و سنت کے مطابق باتوں) میں نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا::‘‘الإ شراک باللہ و عقوق الوالدین و قتل النفس وشھادۃ الزور’’.اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی (بے گناہ) انسان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہیدینا(البخاری:۲۶۵۳مسلم:۸۸)ابی بن مالک العامری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:‘‘من أدرک والدیہ أوأحدھما ثم دخل النار من بعد ذلک فأبعدہ اللہ وأسحقہ’’جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے ایک (والد یا والدہ) کو (زندہ) پائے پھر اس کے بعد(ان کی خدمت نہ کرنے کی وجہ سے) جہنم میں داخل ہو جائے تو اللہ نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا اور وہ اس پر ناراض ہے۔(مسند احمد۴؍۳۴۴ح۱۹۲۳۶وسندہ صحیح)خلاصہ: والدین کےساتھ حسنِ سلوک اور معروف میں ان کی اطاعت فرض ہے۔ا پنے رب کو راضی کرنے کے لئے اپنے والدین سے محبت کریں، جہاد اگر فرض عین نہ ہو تو والدین کے لئے چھوڑا جا سکتا ہے۔ وما علینا إلا البلاغ.