8 ماہ میں 3 میتیں دیکھیں، یوں لگتا ہے خُدا نے جنازے اُٹھانے کیلئے جوان کیا ۔۔ کچھ ایسے دلخراش لمحات جو انسان کو خُدا سے جوڑ دیتے ہیں
موت زندگی خُدا کے ہاتھ ہے۔ وہ چاہے تو تنکے میں بھی جان ڈال دیتا ہے۔ وہ چاہے تو صحت مند کو بھی ختم کر دیتا ہے۔ اس کی ذات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اللہ کے فیصلوں پر کامل ایمان رکھنا اور اس کی جانب سے دیے گئے غموں پر ضبط رکھنا ایک مشکل ترین کام ہے۔ انسان کو خُدا اتنی ہی مشکلات دیتا ہے، جتنی وہ برداشت کرسکتا ہے لیکن غم کے وقت ہمیں یہ احساس نہیں رہتا اور ہم اللہ سے شکوے شکایات کر بیٹھتے ہیں۔ جب دل تسلی میں آ جاتا ہے تو سمجھ آتا ہے کہ خُدا کی کوئی مصلحت ہوگی۔
اپنوں کا ساتھ اور پیار زندگی بھر انسان کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں، اللہ نے ان رشتوں کے ساتھ مجھے جوڑے رکھا ہے جو میری طاقت ہیں، مجھے حوصلہ دیتے ہیں، مجھے سنبھالتے ہیں۔ لیکن جب یہی اپنے آپ سے جدا ہو جائیں تو اس تکلیف کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن پر گزری ہو۔ بالکل ایسا ہی ایک فیس بُک صارف کے ساتھ ہوا جن کے ہاں 8 ماہ میں 3 میتیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنے پوسٹ میں لکھا کہ: ” 8 ماہ، 3 میتیں، ان گنت آنسو، لاکھوں دلاسے، بے شمار اِنَ اللہ٘ وَاِنَ الیہٖ راجعون٘، سسکتی آہوں کے ساتھ زندگی رواں دواں ہے۔ یوں لگتا ہے خدا نے جنازے اٹھانے کے لئے جوان کردیا۔۔ 🙏 اِن الّلہ مع٘ الصٰابریِن ”
کسی کے ہاں اگر ایک سال میں ایک میت ہو تو اسی کا غم بھلانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ زندگی بیشک کسی کے لیے نہیں ٹہرتی وہ اپنے راستوں پر گامزن رہتی ہے، مگر اپنوں کو کھونے کا دُکھ دل سے نہیں جاتا۔ پھر 8 ماہ میں 3 لوگوں کو کھونا تکلیف دہ عمل ہے یقیناً زندگی اور موت کا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ بہتر فیصلے لینے کا حق رکھتا ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والے اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو رہے ہیں وہ یقیناً ایک اچھے مقام پر ہیں۔ لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں وقت ضرور لگتا ہے۔ لیکن اللہ جو کرتے ہیں وہی انسان کی بہتری کے لیے ہے۔
ہمارے معاشرے میں بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی تکلیف میں ہو تو لوگ اس پر باتیں پہلے بناتے ہیں، مزاق پہلے اُڑاتے ہیں، اس کے بعد غم میں شرکت کرنے آ جاتے ہیں۔ ہر شخص اپنے کردار اور اخلاق سے بڑا بنتا ہے، پیسہ اور دولت تو فانی ہے۔ اخلاق اور کردار ہی اصل وہ چیزیں ہیں جن کی بدولت اللہ انسان کو دوزخ سے جنت کے محل تک پہنچا دیتا ہے۔ ایک خاتون نے صارف سے تعزیت کی اور ان کو صبر کرنے کی تلقین کی تو قریبی موجود دوسری خاتون نے کانوں میں سرگوشی کی، ارے کیا ضرروت تھی تعزیت کرنے کی، ان کے ہاں تو ایسا ہوتا رہتا ہے۔ دیکھو 8 ماہ میں تیسری موت ہو رہی ہے ان کے گھر میں تو یہ سب ہوتا رہتا ہے، اب کب تک تعزیت کی جائے۔ اندازہ لگائیے، کیا دردناک لمحہ ہوگا وہ کہ کوئی یہ الفاظ ادا کرے اور طنزیہ مسکرا جائے ۔۔
یہ وہ لمحات تھے جب احساس ہوا کہ برے وقت کا ساتھی خُدا ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ مزاق اُڑانے اور طنز کرنے سے پہلے ہمیں وقت، موقع، محفل اور جگہ دیکھ کر بات کرنی چاہیے۔ اگر آپ کسی کے درد کو سمجھ نہیں سکتے، اس کا احساس نہیں کرسکتے تو کچھ بھی نہ کریں، کم از کم خاموش رہیں۔ اللہ اگر کسی کے ساتھ اچھا کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں تکالیف نہیں دے گا، یا اگر کسی کےساتھ برا کرتا ہے تو ہمیشہ برا نہیں کرتا بلکہ صبر کا صلہ اچھائی میں دیتا ہے۔
انسانوں سے رجوع کرنا اور توقعات کرنے سے بہتر ہے تہجد میں خُدا سے ہمکلام ہو کر اپنے دکھوں کا بوجھ کم کرلیں۔ یہ وقت کسی کی دل آزاری کرنے سے زیادہ زندگی کے مقصد کو سمجھنے کے لیے ہے۔