in

سلطان راہی مرحوم کی وہ فلم جس پر جنرل ضیاء الحق نے پابندی لگوا دی تھی

سلطان راہی مرحوم کی وہ فلم جس پر جنرل ضیاء الحق نے پابندی لگوا دی تھی

لاہور (ویب ڈیسک) ڈاکٹر امجد ایوب مرزا نے اپنی کتاب ’پاکستانی سینما میں ثقافت کی جعلی نمائش‘ میں لکھا ہے کہ ’فلم مولا جٹ‘ میں سلطان راہی اور مصطفی قریشی کے درمیان بڑے تیکھے جملوں کا تبادلہ جاری رہا۔ فلم میں نوری نت کا لہجہ ’ضیا الحق کا جیسا مکارانہ‘ جبکہ مولا جٹ کا واشگاف

اور انصاف کا طالب لہجہ تختہ دار پر پہنچا دیے گئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسا تھا۔ یہ فلم اس وقت کے ملکی سیاسی حالات کا استعارہ تھی۔ضیا الحق نے اس فلم کی نمائش پر پابندی لگوانے کی کوشش کی لیکن سرور بھٹی کسی نہ کسی طرح عدالت سے سٹے آرڈر لینے میں کامیاب ہوگئے۔

یہ فلم باکس آفس پر اس قدر ہٹ ہوئی کہ اس کی نمائش مسلسل ڈھائی سال تک جاری رہی۔ اس دوران ہزاروں لوگوں نے اس فلم کو دیکھنے کے لیے بار بار سینما گھروں کا رخ کیا۔ اگلے نو برس تک ضیا الحق برسراقتدار رہے اور اس دوران سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی جوڑی ایسی سینکڑوں کا مرکزی کردار بنی رہی جن میں تشدد اور ظلم کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا کہ ناظرین کو وحشی فوجی آمریت کے ہاتھوں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں معمولی لگنے لگیں ۔ پاکستانی سینما پر اب پنجابی فلموں کا بلاشرکت غیرے راج تھا۔

‘اب سلطان راہی فلم سازوں کے لیے ایک ایسا ہیرا بن چکا تھا کہ ہر کوئی اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت لگا کر اسے حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آنے لگا۔ سلطان راہی کو فلموں میں غیر فطری کردار میں پیش کر کے فلم سازوں اپنی تجوریاں تو بھر لیں مگر ایک فن کار کے اندر چھپی ہوئی فنی صلاحیتوں کے اعلیٰ اور مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اس کی ضرورت کو محسوس تک نہیں کیا۔معروف کہانی نویس ناصر ادیب کا کہنا ہے کہ انھوں نے پچیس سال تک صرف ایسی فلمیں لکھیں

جو ایک جملے ’میں تینوں چھڈاں گا نئیں‘ کے اردگرد گھومتی تھیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان راہی کو اپنی ہر فلم میں یہ جملہ ضرور کہنا ہوتا تھا۔سلطان راہی نے سینکڑوں فلموں میں کام کیا، بیشتر فلموں میں ان کا کردار یکسانیت کا شکار تھا مگر اس کے باوجود چند فلمیں ایسی تھیں جن میں انھوں نے چونکا دینے والے کردار ادا کیے۔ان فلموں میں چوروں قطب، کالیا، طوفان اور مفرور کے نام سرفہرست ہیں۔ اس دوران سلطان راہی کی بہت سی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں جن میں وحشی گجر، شیر خان، سالا صاحب، چندوریام، اتھراپتر، راکا، لاوارث، شعلے، قیدی، ، مولا بخش، کالے چور، ماجھو، بالا پیرے دا اور سخی بادشاہ کے نام شامل ہیں۔سلطان راہی نے بطور فلم ساز ایک فلم ’تقدیر کہاں لے آئی‘بھی بنائی تھی۔

1976 میں ریلیز ہونے والی یہ اردو فلم بری طرح ناکام ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے پھر کوئی فلم نہیں بنائی لیکن بہت سے فلم سازوں کو فلمیں بنانے میں مالی مدد فراہم کی۔ وہ ایک فراخ دل اور مخیر شخص تھے۔ بہت سے ہنر مندوں کے گھروں کے چولہے ان کی دریا دلی کی وجہ سے جلتے تھے۔انھوں نے ایورنیو سٹوڈیو میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی جو اپنی نوعیت کی واحد مسجد ہے۔ وہ ایک اچھے قاری بھی تھے،

جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ سلطان راہی ایک بہت سادہ مزاج انسان تھے۔ انھوں نے انور مقصود کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ وہ کھانا بھی زمین پر بیٹھ کر کھاتے ہیں اور سوتے بھی زمین پر ہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’مجھے زمین سے بہت زیادہ محبت ہے، میں زمین کو ہمیشہ زیادہ ترجیح دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے جانا اسی کے نیچے ہے۔‘

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

343 ارب کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم!! عام آدمی کے لئے کون کون سی اشیاء مہنگی ہوں گی؟ حیران کن اعدادوشمار سامنے آگئے

کیاآپ آج کی وہ مشہور پاکستانی اداکارہ کو جانتے ہیں جو کچھ عرصہ قبل ائیرہوسٹس تھی؟