in

343 ارب کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم!! عام آدمی کے لئے کون کون سی اشیاء مہنگی ہوں گی؟ حیران کن اعدادوشمار سامنے آگئے

343 ارب کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم!! عام آدمی کے لئے کون کون سی اشیاء مہنگی ہوں گی؟ حیران کن اعدادوشمار سامنے آگئے

لاہور: (ویب ڈیسک) ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ” دنیا بھر میں قومی بجٹ سال میں صرف ایک بار پیش کیا جاتا ہے جس میں دی گئی مراعات آئندہ بجٹ تک لاگو ہوتی ہیں۔ ایکسپورٹرز اور امپورٹرز اِاس بجٹ کی بنیاد پر اپنی لاگت کا تخمینہ لگاتے ہیں اور آرڈر بک کئے جاتے ہیں لیکن مالی سال کے دوران اگر ضمنی یا منی بجٹ پیش کیا جائے تو یہ ایک عام آدمی کے علاوہ ٹریڈرز، امپورٹرز اور ایکسپورٹرزکے لیے ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔

کیوں کہ نئی ڈیوٹیزاور ٹیکسز لگنے سے ان کی لاگت بڑھ جاتی ہے جب کہ ایکسپورٹ کے آرڈرز پرانی قیمت پر ہی مکمل کرنے پڑتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنے قرضے کی شرائط کے مطابق 700ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا سخت مطالبہ کیا تھا جب کہ ہماری حکومت 356 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر رضامند ہوئی۔ پاکستان میں منی بجٹ کی روایت عام ہے ۔ اس بار بھی آئی ایم ایف کے کہنے پر حکومت نے منی بجٹ یعنی سپلیمنٹری فنانس بل 2021ء کابینہ سے منظور ی کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا ہے جس پر بحث جاری ہے۔ منی بجٹ کی اہم تفصیلات کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء، بے بی ملک، موبائل فون، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری مصنوعات، پولٹری، پاور سیکٹر، فارماسیوٹیکل انڈسٹری کا خام مال اور ادویات، انرجی سیور بلب، برقی کاروں، بیکری آئٹمز، ریسٹورنٹس، فوڈ چینز، کاسمیٹکس اور جیولری پر مجموعی طور پر343ارب روپے کی سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرکے 17 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کیا جارہا ہے جس سے یہ اشیا مہنگی ہوجائیں گی اور اس کا براہ راست اثر ایک عام آدمی، صنعت کار اورتاجر پر پڑے گا۔ اطلاعات کے مطابق صرف فارماسیوٹیکل خام مال سے 160ارب روپے، پلانٹ اور مشینری کی امپورٹ سے 112ارب روپے اور کھانے پینے کی اشیاء، پاور سیکٹر، موبائل فونز پر 15فیصد، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر 17فیصد ودہولڈنگ ٹیکس سے 71ارب روپے اضافی وصول کئے جائیں گے۔ چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق کی حالیہ پریس کانفرنس کے مطابق پاکستان میں فارماسیوٹیکل کے 800مینوفیکچررز ہیں جن میں سے صرف 453ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں رجسٹرڈ ہیں جس کی وجہ سے فارماسیوٹیکل سیکٹر کو دستاویزی شکل دینا ضروری ہے۔

حکومت کے مطابق 343ارب روپے کی اضافی وصولی سے جی ڈی پی میں 0.6فیصد اضافہ متوقع ہے۔ حکومت کا یہ کہنا کہ موبائل فون، پلانٹ اینڈ مشینری، ڈیری مصنوعات، پولٹری، پاور سیکٹر، فارماسیوٹیکل انڈسٹری کا خام مال اور ادویات، انرجی سیور بلب، کاسمیٹکس اور جیولری پر ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور نئے ٹیکسز لگنے کا مالی بوجھ عام آدمی پر نہیں بلکہ اشرافیہ پر پڑے گا جبکہ وزیر خزانہ کا یہ بیان کہ ٹیکس مراعات ختم کرنے اور اضافی ڈیوٹیاں نافذ کرنے سے ایک عام آدمی پر صرف 2ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ان اشیاء میں زیادہ تر کھانے پینے کی اشیاء، بچوں کے دودھ اور ڈائپرز وغیرہ شامل ہیں اور یہ وہ اشیا ہیں جو ایک عام آدمی کے روزمرہ استعمال میں آتی ہیں، ان کی قیمتوںمیں اضافے سے وہ براہ راست متاثر ہوگا۔ اسی طرح امپورٹ اسٹیج پر 525مصنوعات جن میں خام مال، ڈائز اینڈ کیمیکلز، پولیسٹر فائبر، مشینری اور دیگر اشیاء شامل ہیں، پر ٹیکس لگنے سے ان کی امپورٹ لاگت میں اضافہ ہوگا جو ایکسپورٹرز کی مسابقتی سکت کو متاثر کرے گا۔ پی ٹی آئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کا درپیش ہے لیکن بدقسمتی سے وہ اس پر قابو پانے کے بجائے اپنے اقدامات سے مہنگائی میں مزید اضافہ کررہی ہے۔ آئی ایم ایف کی دوسری شرط پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو خود مختاری اور آزادی دینا ہے جس میں گورنر اسٹیٹ بینک کو مکمل اختیارات دینا اور حکومت کا اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کا رجحان ختم کرنا ہے۔

اس کے علاوہ وزارت خزانہ اب اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسیوں کے ذریعے حکومتی معاشی بے ضابطگیاں بھی کنٹرول نہیں کرسکے گی۔اسٹیٹ بینک حکومت اور وزارت خزانہ سے کسی مشاورت کے بغیر پالیسی یا ڈسکائونٹ ریٹ، ڈالر ایکسچینج ریٹ، نوٹوں کی پرنٹنگ اور دیگر اہداف خود طے کرسکتا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی ایسی خود مختاری پر اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جن کے مطابق اسٹیٹ بینک کے مانیٹری اور فسکل بورڈ کو تحلیل کرنا مناسب نہیں۔ اپوزیشن کا بھی کہنا ہے کہ حکومت اس ترمیمی بل کے ذریعے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کی تحویل میں دے رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس ترمیمی بل کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی اسٹیٹ بینک کو اتنی زیادہ آزادی دینے پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں۔

منی بجٹ یا ترمیمی بل 2021ء میں ایف بی آر کا رواں مالی سال ٹیکس وصولی کا ہدف جو 5829ارب روپے تھا، کو بڑھاکر 6100 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق اور ان کی ٹیم کی مسلسل شاندار کارکردگی سے رواں مالی سال کے پہلے 6مہینے میں ایف بی آر نے 2920ارب روپے ٹیکس وصولی کیا ہے جو ہدف سے 287ارب روپے یعنی 32فیصد زیادہ ہے۔ نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر یہ سوال کیا جا رہا ہے

کہ 2022ء معاشی طور پر ملک کیلئے کیسا ہوگا؟منی بجٹ اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے پیش نظر میرے خیال میں 2022ء میں مزید مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی، قرضوں، کرنٹ اکائونٹ، تجارتی خسارے، افراط زر، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگاجس سے ایک غریب آدمی کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ زراعت کے شعبے کو خود کفیل بنائے تاکہ مقامی طورپرتیار کردہ کھانے پینے کی اشیا پر انحصار کیا جاسکے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پی ٹی آئی نے اب تک نواز شریف دور کا کتنا قرضہ واپس کر دیا ہے؟ جان کر آپ کو بھی سمجھ آجائے گی کہ سارا پیسہ جا کہاں رہا ہے

سلطان راہی مرحوم کی وہ فلم جس پر جنرل ضیاء الحق نے پابندی لگوا دی تھی