پیسے نہیں ہوتے تو رات کو گھر نہیں جاتا بچوں کو کیا مُنہ دِکھاؤں گا
بےروزگاری اس قدر عروج پر ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں نے بےروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر خودکشی جیسے حرام عمل
کی طرف جانا بہتر سمجھ لیا ہے مگر صحافت سے وابستہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں بےروزگاری صحافت سے رکشہ چلانے تک لے آئی ہے۔ آج ہم آپ کو بتا رہے ہیں ایک ایسے شخص کی کہانی جو کئی سالوں سے کراچی کے ایک نجی چینل میں کیمرہ مین تھا،
مگر جب نوکری چھوٹی تو بےروزگاری نے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا۔ ہم بات کر رہے ہیں سفیر احمد کی جو اپنی زندگی کے مشکل ترین وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ بےروزگار ہوا تو کئی راتیں گھر سے باہر سو کر گزاریں کہ بِنا پیسے گھر جاؤں گا تو بیوی بچوں کو کیا منہ دِکھاؤں گا۔ بےروزگاری نے کیمرہ مین کی زندگی کیسے بدلی؟ سفیر احمد نے بتایا کہ انہوں نے اسپتال میں 12 ہزار کی نوکری کے لئے بھی اپلائے کیا
، مگر ان کی سی وی دیکھ کر وہاں کہ ایچ آر بھی حیران رہ گئے کہ ماضی میں سالوں نیوز چینل میں کام کرنے والا کیمرہ مین اب 12 ہزار کی نوکری کرے گا۔ کئی مہینوں نوکری کی تلاش میں جوتے گھِسنے کے بعد آخر کار سفیر احمد نے رکشہ چلانے کا فیصلہ کیا،
اب سفیر احمد بڑے بڑے ہوٹلوں کے سامنے سے رکشہ چلا کر جاتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ کبھی انہوں نے اِن ہوٹلوں میں مشیروں اور وزیروں کی نیوز کانفرنس کی کوریج بھی کی اور ان کے ساتھ چائے بھی پی تھی۔ اب سفیر احمد دن بھر رکشہ چلاتے ہیں اور اس ہی طرح اپنے گھر کا خرچہ پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مگر یہ صحافت کا پیشہ سفیر احمد اور ان کے جیسے کئی لوگوں کو کہاں سے کہاں لے آیا، ایک وقت میں اس پیشے سے جُڑے افراد کو بےحد عزت اور اعزاز حاصل ہوا کرتا ہے مگر اب صحافت کے شعبے میں نوکریوں کے بحران نے صحافیوں کی زندگی ختم کرنا شروع کر دی ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے
کہ بےروزگاری سے تنگ آکر خودکشی یا پھر بےروزگاری سے تنگ آکر ایک پڑھے لکھے شخص کا رکشہ چلانا، کیا پاکستان میں صحافت سے وابستہ افراد کا یہی مستقبل ہے؟