اگر ایک شخص مخالفت نہ کرتا تو علامہ محمد اقبال 1925 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بن جاتے ۔۔۔۔ ایک بھولا بسرا حیران کن تاریخی واقعہ
اگر ایک شخص مخالفت نہ کرتا تو علامہ محمد اقبال 1925 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج بن جاتے ۔۔۔۔ ایک بھولا بسرا حیران کن تاریخی واقعہ
لاہور (ویب ڈیسک) سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان اپنے ایک خصوصی کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔
علامہ کی شخصیت کا ایک قابلِ ذکر پہلویہ ہے جو عموماً نظروں سے اوجھل رہا ہے کہ ِ وہ بہت بڑے قانون دان بھی تھے، مگر ہندو تعصب کاشکار ہو گئے ۔
انکے بہ طور قانون دان نمایاں ہونے کی راہ میں اس وقت کی چیف کورٹ کے چیف جسٹس شادی لال بڑی رکاوٹ تھے۔ بیرسٹر اقبال کی وکیلانہ قابلیت بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُنہوں نے جتنے بھی مقدمات کی پیروی کی ،پچاس فیصد سے زیادہ میں کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابیاں اُنہوں نے اپنے وقت کے نامی گرامی وکلاء کے مقابل حاصل کیں۔
ان قانون دانوں میں بیرسٹر سر محمد شفیع، بدرالدین قریشی، مسٹر محمد دین (بعد میں جسٹس)، بیرسٹر خواجہ ضیاء الدین، سید محسن شاہ (بعد ازاں جسٹس)، گوکل چند، بھگت ایشور داس، مسٹر گن پت رائے، برج لال، شیخ عمر بخش، عزیز احمد، سرفضل حسین، بھگت رام پوری، کنور نارائن، رائے بہادر لالہ، فقیر چند، موتی ساگر (بعد ازاں جسٹس)، بلونت رائے، لالہ کشن چند، نندلال، رائے بہادر لالہ کپور، رام بھاج دتہ، کالندہ رام، سردار تیجا سنگھ اور دیگر بہت سے بڑے نام ہیں۔
بیرسٹر اقبال کے برائے نام وکیل ہونے کے مفروضے کی تردید کیلئے انکی پیشہ ورانہ شہرت کی وسعت کو بہ طور ثبوت بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ مقدمات اقبال کے دستیاب ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ بہ طور وکیل ان کا نام ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں معتبر گردانا جاتا تھا ۔دور دراز اضلاع کے مؤکلین اپنے مقدمات کی پیروی کے لئے اقبال کو اپنا وکیل منتخب کرتے تھے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ضلع لاہور اور اپنے آبائی ضلع سیالکوٹ کے علاوہ جن اضلاع کے مؤکلین نے اقبال کو چیف کورٹ میں اپنا وکیل مقرر کیا ان میں ضلع سرگودھا، راولپنڈی، ملتان، انبالہ، جہلم،
اٹک، شاہ پور، لدھیانہ، جالندھر، ہوشیار پور، کانگڑہ، حصار، گورداسپور، فیروز پور، منٹگمری (اب ساہیوال)، دہلی، گوجرانوالہ، مظفر گڑھ، لائل پور (اب فیصل آباد) گجرات اور کیمبل پور کے علاوہ ریاست کرنال اور ریاست جموں وکشمیر کے مؤکلین شامل ہیں۔ایسی پذیرائی ناکام نہیں انتہائی قابل وکیل ہی کی ہوسکتی ہے۔ ’’قانون دان اقبال‘‘ کے حوالے سے ظفر علی راجا ایڈووکیٹ کی تحقیق میں علامہ کی اس حوالے سے شخصیت کے بہت سے پہلو نمایاں ہوئے ہیں جو عرصہ سے عوام کی نظروں سے پوشیدہ تھے۔ سر میاں محمد شفیع کا لاہور میں قانون اور وکالت میں بڑا نام تھا۔ اقبال اور میاں شفیع کے گہرے مراسم تھے۔ سر شادی لال کو چیف جسٹس بنانے کی وائسرائے ہند سے سفارش میاں شفیع نے کی تھی۔ چیف جسٹس بننے کے بعد شادی لال اور میاں شفیع کی دوستی برقرار نہ رہ سکی۔ شادی لال بیرسٹر اقبال کو میاں شفیع کی مخالفت پر لانے کیلئے کمربستہ ہوگئے لیکن اقبال اسکی باتوں میں نہ آئے بلکہ اسکی سازشوں کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ شادی لال نے ایک موقع پر کہا ’’مجھے خطابات کیلئے سفارش کیلئے کہا گیاہے۔ میں آپ کیلئے ’’خان صاحب‘‘ کے خطاب کی سفارش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اقبال نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ ایک روز شادی لال کا ملازم علامہ اقبال کے گھر آیا اور پیغام دیا کہ چیف جسٹس آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ علامہ نے کہا کہ اگر خطاب دینے کی بات کرنا ہے تو ملاقات کی ضرورت نہیں۔ اس پر بھی شادی لال کا لال پیلا ہونا فطری امر تھا۔ اقبال نے شادی لال کی طرف سے دیا جانے والا خطاب تو قبول نہ کیا
تاہم وائسرائے ہند نے آپ کو سر کا خطاب ضرور دے دیا۔’’خان صاحب‘‘ سے کہیں برتر یعنی ’’سر‘‘ کا خطاب جو کہ خود چیف جسٹس شادی لال کو حاصل تھا، بیرسٹر اقبال کو عطا کرنے کا اعلان ہوا تو جسٹس شادی لال کے حسد و بغض میں مزید اضافہ ہو گیا ہو گا۔ دیگر بھی ایسے کئی واقعات ہوئے جو شادی لال کی اقبال سے عناد اور کدورت کا سبب بنے۔مولانا عبدالمجید سالک کا بیان ہے کہ اقبال کے حاسد، حکام اعلیٰ کو اقبال سے بدظن کرنے میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے لیکن نواب ذوالفقار علی خان ان تمام فتنہ انگیزیوں کے سدباب کیلئے سینہ سپر رہا کرتے تھے اور چاہتے تھے بیرسٹر اقبال عدالت عالیہ کے جج بن جائیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے کبھی کسی خطاب کیلئے از خود کوئی کوشش نہیں کی۔ظاہر ہے کہ اقبال کی اتنی زبردست حکومتی اور عوامی پذیرائی پر جسٹس سر شادی لال تلملاتے رہے ہوں گے اور خود سے اقبال کی بے رْخی اُن کے دل پر گہرے گھاؤ لگاتی رہی ہو گی۔ یہی وہ پس منظر ہے کہ جب 1925ء میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک خالی اسامی کے لئے اقبال کی بطور جج تعیناتی کی تحریک ہوئی تو چیف جسٹس سر شادی لال نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے یہ طنزیہ فقرہ کہا:’’ہم اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں قانون دان کی حیثیت سے نہیں۔‘‘جسٹس شادی لال کا یہ کہنا کہ وہ اقبال نام کے کسی وکیل کو نہیں جانتے قانونی کتب میں ہائی کورٹ کے شائع شدہ فیصلہ جات کے ریکارڈ
سے بھی جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ عدالت عالیہ کے شائع شدہ فیصلہ جات سے ظاہر ہوتاہے کہ شادی لال بطور مخالف وکیل بھی اقبال کے ساتھ ہائی کورٹ کے مقدمات میں پیش ہوئے اور پھر شادی لال کے جج بن جانے کے بعد پندرہ ایسے مقدمات کی تفصیل بھی ملتی ہے جن میں بیرسٹر سر محمد اقبال نے جسٹس شادی لال کی عدالت میں پیش ہو کر مقدمات کی پیروی کی۔ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جسٹس سر شادی لال نے اقبال کی قانونی حیثیت سے یکسر نا آشنائی کی بات بدنیتی، حسد اور ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر کی تھی کیونکہ بیرسٹر محمد شفیع کے مقابلے میں اقبال نے سر شادی لال کی ہمنوائی سے انکار کیا تھا۔ ایک طرف تو بحیثیت چیف جسٹس وہ لاہور بار کے ممتاز رکن بیرسٹر اقبال کو بْلا کر خود انہیں ’’خان صاحب‘‘ کے خطاب کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ان کی قانونی شناخت تک سے انکاری دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور واقعہ کاذکر خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ اس واقعے نے بھی سر شادی لال کے دل پر ضرور ایک انمٹ زخم لگایا ہو گا۔ یہ واقعہ اکتوبر 1933ء کا ہے جب چیف کورٹ لاہور کو ہائی کورٹ پنجاب میں تبدیل کیا گیا۔ وائسرائے ہند نئے ہائی کورٹ پنجاب کا افتتاح کرنے کیلئے بطور خاص لاہور آئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس سر شادی لال نے استقبالیہ تقریر کی۔ وائسرائے ہند نے جوابی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ بیرسٹر اقبال کے بارے میں بھی تعریفی کلمات کہے۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ راقم نے بھی قانون کا پیشہ، اقبال و قائد کی قانون سے محبت سے متاثر ہو کر اختیار کیا تھا۔