وہ لڑکی بینظیر تھی۔۔۔ پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو کی زندگی کے اتار چڑھاؤ
کراچی(ویب ڈیسک) پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو اپنی سیاسی بصیرت اور جمہوریت کیلئے لازوال قربانی کی بدولت تاریخ میں امر ہوچکی ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو 21 جون 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان
میں پیدا ہوئیں۔ آج محترمہ بینظیر بھٹو کی 69 ویں سالگرہ پورے ملک میں بھی جوش و خروش کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر پاکستان ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کیلئے ایک نمونہ بنیں اور پاکستان کے عوام بینظیر کو چاروں صوبوں کی زنجیر کے نام سے یاد کرتے تھے۔
کارکنوں سے محبت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ کسی پروٹوکول کو خاطر میں نہ لاتیں۔ خطرات کے باوجود لیاری اور دیگر علاقوں میں کارکنوں کے گھر پہنچ جاتیں اور یہی وجہ ہے کہ کارکن آج بھی انہیں یاد کرکے غمگین ہوجاتے ہیں
بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور کاونونٹ آف جیسز اینڈ میری کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کاونونٹ میں بھی تعلیم حاصل کی۔
15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا اور اکسفورڈ یونیورسٹی میں کافی مقبول رہیں۔ بے نظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد حالات کی خرابی کی بنا پر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
جنرل ضیاءالحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی جس کے بعد انہوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل ختم ہونے کے بعد جب اپریل 1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جِدوجُہد کا دامن نہیں چھوڑا
17 اگست، 1988ء میں ضیاءالحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا دروازہ کھلا۔ 16 نومبر 1988ء کو ملک میں عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں اور بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا تاہم اگست 1990ء میں صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
1993ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق لغاری نے 1996ء میں حکومت کو برطرف کر دیا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں
دبئی میں قیام کیا اورتقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ کراچی میں حملے کے بعد انہیں باربار متنبہ کیا گیا لیکن وہ کارکنوں سے ملتی رہیں اور 27 دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آ رہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔
اس دوران جب وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی اور جمہوریت کا یہ روشن چراغ بجھا دیا۔