اوریا مقبول جان کی ایک چشم کشا تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔مسلم لیگ (نواز) کے دائمی سربراہ میاں محمد نواز شریف کے والدین اگر واہگہ سے پار واقع گائوں جاتی امرا، سے تلاشِ رزق کے لئے لاہور آنے کی بجائے، فرغانہ کی بستی، غور کی سلطنت یا غزنی کی گلیوں سے گھوڑوں
کی پیٹھوں پر سوار ہو کر برصغیر پاک و ہند پر دندناتے ہوئے آئے ہوتے، تو یہ فقرہ ان کے ’’مذاقِ عالی‘‘ اور ’’مقامِ ہیبت‘‘ پر زیب دیتا کہ ’’ہم نے اس شخص کو معاف کر دیا جس نے ہمیں تخت و تاج سے محروم کیا تھا‘‘۔ یہ ملک ایک تماشہ گاہ ہے ،جس میں کوئی بھی کردار، کسی بھی وقت سٹیج پر چڑھ آتا ہے اور اپنی مرضی کے مکالمے بولنے لگتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سٹیج کے سامنے بیٹھے ہوئے عوام میں ایسے لاتعداد گروہ ہر وقت موجود رہتے ہیں جو ہر قسم کے بے سروپا ڈائیلاگ پر بھی تالیاں بجاتے ہیں اور جوش میں اُچھلتے ہیں۔
اس ملک میں گذشتہ پچھتر سال سے یہی چلتا چلا آ رہا ہے۔ یہ ملک ایک مفتوحہ علاقہ ہے جس پر ’’کمپنی بہادر‘‘ کے پروردہ ان چند سو خاندانوں کی حکومت ہے جسے کمپنی بہادر، ایک بڑے خاندان کی صورت چھوڑ گیا، جس میں سیاسی اشرافیہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی شامل ہے، بالکل ویسے ہی جیسے شہاب الدین غوری واپس لوٹتے ہوئے، ہندوستان کا تخت اپنے زرخرید غلام قطب الدین ایبک کے حوالے کر گیا تھا۔ ہر آنیوالے حکمرانوں کو خوش آمدید کہنے والا یہ خطہ آزادی کے بعد بھی ہر نئی تبدیلی پر اپنے آبائو اجداد کی روایت پر قائم رہا۔ اقتدار سے محروم ہونیوالے ہر حکمران سے تعلق توڑا گیا ہے اور نئے آنیوالے کو آگے بڑھ کر خوش آمدید کہا گیا۔ دس اپریل 2022ء کو اس نے اپنی روایت بدلی ہے۔ جلا وطنی میں سر میں تاجِ کجکلاہی کا
سودا سمائے اور تصوراتی ’’لباسِ فاخرہ‘‘ زیب تن کئے نواز شریف نے بالآخر پرویز مشرف کو معاف کر دیا اور تاریخ میں اس فقرے کی گونج زندہ کر دی جو پورس اور سکندر کی گفتگو کے دوران بولا گیا تھا ’’کہ میں تم سے اسی سلوک کی توقع کرتا ہوں جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے ہیں‘‘۔پورس حکمران تو بن گیا لیکن اس کا نام عوامی لغت سے خارج ہو گیا۔ آج اس برصغیر میں آپ کو فاتح سکندر کے نام پر لاکھوں بچے نوجوان اور بوڑھے مل جائیں گے، لیکن خلیج بنگال سے لے کر خنجراب تک پورے خطے میں کوئی پورس نام کا ایک شخص بھی نہیں مل سکے گا۔ 326 قبل مسیح میں یہاں آباد نسلوں کے وارث آج بھی نہیں بدلے۔
کوئی راجہ امبھی کی طرح فاتحین کو تمام خدمات پیش کر دیتا ہے تو کوئی پورس کی طرح ایک رات لڑنے کے بعد دھرتی کے محافظ کی طرح سینہ تان کر موت نہیں مانگتا، بلکہ بادشاہوں والا سلوک مانگ کر کھوئی ہوئی سلطنت واپس لے لیتا ہے۔ بادشاہ تخت کی لڑائی میں نوازتے بھی ہیں، جرم بھی کرتے ہیں اور معاف بھی کرتے ہیں۔ کیا پرویز مشرف صرف نواز شریف کا مجرم تھا۔ کیا وہ صرف اس جمہوریت کا مجرم تھا۔ مشرف کو آئین توڑنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ جمہوریت پرستوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہو گیا۔ مشرف جن کے بل بوتے پر برسراقتدار آیا تھا انہوں نے خود اسے جلاوطنی کا راستہ بھی دکھایا اور اب واپسی کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔ جو ایوانِ اقتدار سے
دو دفعہ رُسوائی سے نکالے گئے تھے، انہیں ٹھیک دو دفعہ عزت و احترام سے خلعت شاہی عطا کی گئی۔ بادشاہ، بادشاہوں سے بادشاہوں والا سلوک ہی کیا کرتے ہیں۔مرنے کیلئے عوام ہیں جنہیں ’’پورس‘‘ کے ہاتھ کچل دیتے ہیں۔ کاش یہ اُمت زندہ ہوتی تو کہتی مشرف کسی شخص، ملک یا جمہوریت کا نہیں اُمتِ مسلمہ کا ملزم ہے۔ اس پر یہ فردِ جرم عائد ہوتی کہ تم نے ایک کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے، کیسے اپنے زیرِانتظام تین ہوائی اڈوں سے امریکی جہازوں کو اُڑنے کی اجازت دی کہ وہ پڑوس میں مسلمانوں کی ہنستی بستی آبادیوں پر بم برسائیں اور مسلمانوں کو زندگی سے محروم کریں۔
اس پر یہ فردِ جرم عاید ہوتی کہ تمہیں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان یاد نہیں تھا کہ قیامت کے دن اللہ کا غضب اس شخص کے لئے بے پناہ ہو گا جو کسی آزاد مسلمان کو قید کرے اور آگے بیچ دے۔ تم نے چار سو سے زیادہ مسلمانوں کو پیسے لے کر آگے بیچا اور پھر اس پر اتراتے بھی رہے۔
اس کی فردِ جرم میں اسلام کے اس بنیادی اُصول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی خلاف ورزی بھی شامل ہوتی کہ سفارت کار تمہاری پناہ میں ہوتے ہیں، لیکن تم نے ایک مسلمان سفارت کار ملا عبدالسلام ضعیف کو کس تحقیر اور ذلت کے ساتھ غیر مسلموں کے حوالے کر دیا۔مشرف اور ہم سب نے جلد ایک ایسے دربار میں پیش ہونا ہے جہاں فردِ جرم لکھی جا چکی ہے اور وہاں گواہوں کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔ زبان خاموش ہو گی اور جسم کے اعضاء خود گواہی دیں گے۔