in

پاکستان میں صدارتی نظام کی گونج!!!صدارتی نظام کیا ہے، عمران خان کے ’’صدر ‘‘ بنتے ہی انکے پاس کیا طاقت آجائیگی؟

پاکستان میں صدارتی نظام کی گونج!!!صدارتی نظام کیا ہے، عمران خان کے ’’صدر ‘‘ بنتے ہی انکے پاس کیا طاقت آجائیگی؟

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) صدارتی نظام کیا ہے؟ کیا یہ بھی ایک جمہوری نظام ہے؟ ؟ کیا صدارتی نظام ون مین شو ہوتا ہے، یعنی تمام پاورز صدر کے پاس ہوتی ہیں؟ ؟ کیا میں صدر کو ہٹایا جا سکتا ہے؟ صدارتی نظام کی بنیادی طور پر کون سی دو اقسام ہیں؟ صدارتی نظام کے فائدے اور نقصان کیا کیا ہیں؟

کیا صدارتی نظام میں پارلیمنٹ ہوتی ہے ؟ اگر ہاں تو کیا اس کے پاس پاورز بھی ہوتی ہیں یا یہ صرف شو شا ہی کے لیے ہوتی ہےان تمام سوالوں کے جواب اور صدارتی نظام کے متعلق اور بہت سی باتیں جانیں اس بلاگ میں۔قارئین سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ صدارتی نظام بھی ایک جمہوری نظام ہی ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام ہونا چاہیئے یا نہیں، آج کل لوگ اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں مگر زیادہ تر کو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ ہے کیا؟ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ صدارتی نظام  یا آمریت کا نام ہے جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔اصل میں صدارتی نظام میں صدر حکومت ، یعنی انتظامیہ کا ہیڈ ہوتا ہے اور اس کا تعلق پارلیمنٹ سے نہیں ہوتا۔ اسے نہ تو پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے اور نہ ہی اس کو ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ میں  یعنی تحریکِ عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر  میں صدر پارلیمنٹ کو جوابدہ ہی نہیں ہوتا۔ مزے کی بات یہ کہ پارلیمنٹ صدر کو ہٹا ہی نہیں سکتی ۔ اس طرح صدر کی سیٹ بڑی پکی اور مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود انتہائی  یعنی غیر معمولی وجوہات کی وجہ سے پارلیمنٹ  کو  کرکے یعنی مواخذے کے ذریعے ہٹا سکتی ہے۔

زیادہ تر کیسز میں تو صدر ہونے کے ساتھ ساتھ  یعنی ریاست کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ پارلیمانی سسٹم کی بات کریں تو اس میں تو یہ ہوتا ہے کہ پہلے ایک شخص ایم این اے بنتا ہے۔ پھر اسے نیشنل اسمبلی میں وزیرِاعظم کا الیکشن لڑنا پڑتا ہے اور جیت جائے تو وزیرِاعظم بن جاتا اور پھر پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے۔ مگر صدارتی نظام میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ صدارتی نظام کی بنیادی طور پر دو  ہیں۔ ایک میں کوئی شخص ڈائیریکٹ ووٹ لے کر  بن جاتا ہے۔ یعنی پاپولر ووٹ سے۔ جبکہ دوسرے میں صدر کو ڈائیریکٹ ووٹ نہیں پڑتے۔ اس کا ایک الیکٹورل کالج ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ہرصدارتی امیدوار کے یا اس کی پارٹی کے نمائندوں کو ووٹ پڑتے ہیں۔ جس کے زیادہ نمائندے جیت گئے وہ  ،،،پریزیڈینٹ بن جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں الیکٹورل ووٹس سے صدر کا منتخب ہونا۔ اور یہ بھی ضروری نہیں جس شخص کو زیادہ پاپولر ووٹ ملیں وہی صدر بنے بلکہ صدر بننے کے لیے زیادہ الیکٹورل ووٹس لینے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر امریکا کے پچھلے الیکشن میں زیادہ پاپولر ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ کو ملے مگر ان کو ملنے والے الیکٹورل ووٹس کی تعداد جو بائیڈن سے کم تھی۔

اس لیے جو بائیڈن امریکا کے صدر منتخب ہوگئے۔ یہ تو تھے  میں صدر کے الیکٹ ہونے کے 2 بنیادی طریقے ۔ اور اب بات  کے فائدوں کی۔ اس نظام میں صدر کے پاس بھرپور اختیارات ہوتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ بہت زیادہ پاورز ہونے کی وجہ سے صدر کی مجبوریاں نہیں ہوتیں۔ وہ بہترین گورننس کرسکتا ہے۔ اس کی کرسی خطرے میں نہیں ہوتی، اس لیے کوئی اسے بیلک میل نہیں کرسکتا۔ البتہ پریذیڈنسی اور پارلیمنٹ ایک دوسرے پر چیک رکھ سکتی ہیں جو کہ بہت اچھی بات ہے۔ اس سے طاقت کا غلط استعمال نہیں ہوتا۔ صدر کے سر پر ہٹائے جانے کی تلوار نہیں لٹک رہی ہوتی۔

اس لیے وہ زیادہ بہتر پرفارم کرسکتا ہے۔ اس نظام میں صدر کو اپنے وزیر اور حکومت کے دیگر لوگ  کرنے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کے باہر سے بھی وزیر لے سکتا اور جب چاہے انہیں ہٹا بھی سکتا ہے۔ اس لیے وزیر ہمیشہ اپنی حد میں رہتے ہیں اور صدر کے خلاف سازشیں نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس نظام میں صدر کی پارٹی اسے کسی کام کے لیے مجبور نہیں کرسکتی۔ صدر کا تمام تر فوکس حکومت چلانے اور گڈ گورننس پر ہوتا ہے۔ وہ جلد فیصلے کرسکتا ہے۔اسے حکومت کے ساتھ ساتھ پارٹی نہیں چلانا پڑتی۔ صدر نہایت آرام سے اور بغیر کسی ٹینشن کے اپنی مدت پوری کرتا ہے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جب زخمی ہوئے تو اہلیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔ مشہور سیاستدان پرویز الٰہی اور شجاعت حسین کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ جانیے ان سے متعلق دلچسپ معلومات

عمران خان سے ملاقات کے دوران اُن کی مداح رو پڑیں ۔۔ عمران خان نے لڑکی سے کیا کہا؟ ویڈیو