جبلِ نُور جہاں پہلی وحی نازل ہوئی تھی ۔۔ پاکستان میں وہ کون سی جگہ ہے جہاں اس جیسا مقام ہے اور لوگ بڑی تعداد میں جاتے ہیں؟
جبلِ نُور مکہ مکرمہ کے مشرق میں ساڑھے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک پہاڑ ہے جس کی ایک غار کو ہم غارِ حرا کے نام سے جانتے ہیں، جہاں پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ مکہ میں موجود اس پہاڑ کو تو دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان جانتے ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں بھی ایک جبلِ نُور موجود ہے۔
پاکستان میں کوئٹہ کے مضافات میں چلتن پہاڑی سلسلے میں بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان سرنگیں کھودی گئیں ہیں جس کو جبلِ نُور القرآن کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ دو بھائیوں نے 1992 میں قرآن کے پھٹے پرانے اوراق اور نسخے محفوظ کرنا شروع کیے تھے۔ ان قرآنی نسخوں کی تعداد اس وقت کم از کم
ڈھائی سے 3 کروڑ ہیں۔ ایک مقامی تاجر صمد لہری اور ان کے بھائی میر عبد الرشید لہڑی کی جانب سے جبل نور فاؤنڈیشن قائم کی گئی تھی جس کے بعد اب تک اس مقام پر پرانے اور قدیم قرآنی نسخے محفوظ رکھے گئے ہیں۔ 30 سال پہلے ایک سرنگ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج 100 سے زیادہ سرنگوں تک جا پہنچا ہے۔ ہر روز یہاں قرآنِ پاک کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس علاقے میں پشتون کی اکثریت ہے اور قریب میں دیوبند مکتبہ فکر کے کئی پرانے دینی مدارس بھی قائم ہیں جہاں سے لاکھوں مسلمان مستفید ہوچکے ہیں۔ اس جگہ کا تمام نظام اپنی مدد آپ کے تحت چل رہا ہے اور اگر کوئی مقامی فرد یا کوئی صاحبِ استطاعت مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ چندہ دے دیتا ہے
البتہ وہاں کام کرنے والے بھی اپنی دلجوئی سے خود بخود کام کرتے ہیں۔ سرنگیں کھودنے کا عمل صبح کے 6 بجے سے شروع ہوتا ہے اور شام 4 بجے تک یہی کام چلتا رہتا ہے۔ ایک ٹیم ہے جو قرآنی نسخوں کو بحفاظت سنبھال کر رکھتی ہے۔
اس جگہ روزانہ کی تعداد میں خواتین اور بچے بھی آتے ہیں۔ لوگ یہاں منتیں اور مرادیں بھی مانگتے ہیں اور ان کا یقین ہے کہ پوری بھی ہوتی ہیں۔ جن کی مرادیں پوری ہوتی ہیں وہ یہاں تحفے کے طور پر قرآن لے کر آتے ہیں۔ نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ قرآنی نسخوں کی زیارت بھی کرتے ہیں۔
یہاں کے خادم بتاتے ہیں کہ یہاں 600 سے 700 سال پرانے اور کچھ 300 سال پرانے قرآن بھی موجود ہیں۔ یہاں حضرت عثمان غنیؓ کے رسم الخط کا قرآن پاک بھی موجود ہے۔ تیونس کا القرآن العظیم، انڈونیشا کے عربی اور رومن زبان کے قرآن کریم کے آخری 10 پارے بھی یہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔