چند تاریخی واقعات
لاہور (ویب ڈیسک) نامور مضمون نگار اور محقق عقیل عباس جعفری بی بی سی کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اُردو کی متعدد تصانیف ایسی ہیں جن پر مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلے، وہ تصانیف ضبط ہوئیں اور بعض مصنفین کو قید و بند یا جرمانے کی صعوبتیں بھی برداشت
کرنی پڑیں۔ان تصانیف میں ڈپٹی نذیر احمد کی ’امہات الامہ‘، منشی پریم چند کی ’سوز وطن‘ اور ترقی پسند افسانہ نگاروں کے مجموعے ’انگارے‘ کے نام سرفہرست ہیں۔ مگر سعادت حسن منٹو تمام مصنفین پر بازی لے گئے۔قیام پاکستان سے قبل منٹو کے تین افسانوں ’کالی شلوار‘، ’دھواں‘ اور ’بُو‘ پرغیر اخلاقی ہونے کے الزام میں مقدمات چلے۔ ان مقدمات میں سزائیں بھی ہوئیں لیکن ہر مرتبہ اپیل کرنے پر عدالت میں منٹو اور ان کے افسانوں کو الزام سے بری کر دیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد سعادت حسن منٹو نے جو پہلا افسانہ تحریر کیا اس کا نام ’ٹھنڈا گوشت‘ تھا۔ یہ ناصرف قیام پاکستان کے بعد منٹو کی پہلی تخلیق تھا بلکہ اپنی مخصوص نوعیت کے اعتبار سے بھی اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔منٹو کا یہ شہرہ آفاق افسانہ لاہور کے ادبی ماہنامہ ’جاوید‘ کی مارچ 1949 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ روزنامہ ’انقلاب‘ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 30 مارچ کو رسالے کے دفتر پر ریڈ ہوا اور رسالے کی تمام کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔خبر میں بتایا گیا کہ اس ریڈ کا سبب ’ٹھنڈا گوشت‘ کی اشاعت تھی۔ اس خبر میں اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ رسالہ ایک دن پہلے ہی مارکیٹ میں آیا تھا۔سات مئی 1949 کو حکومت پنجاب کی پریس برانچ نے سعادت حسن منٹو کے علاوہ ’جاوید‘ کے مدیر عارف عبدالمتین اور ناشر نصیر انور کے خلاف ٹھنڈا گوشت کی اشاعت پر مقدمہ درج کروا دیا۔منٹو نے ٹھنڈا گوشت پر چلنے والے مقدمے کی مکمل روداد اسی
نام سے چھپنے والے افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں ’زحمت مہر درخشاں‘ کے نام سے تحریر کی ہے۔منٹو لکھتے ہیں کہ ’جب میں ہندوستان کی سکونت ترک کر کے جنوری 1948 میں لاہور پہنچا تو تین مہینے تک میرے دماغ کی حالت عجیب و غریب رہی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کہاں ہوں؟ ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں۔ بار بار دماغ میں الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا، کیا پاکستان کا ادب علیحدہ ہو گا؟ اگر ہوگا تو کیسے ہو گا؟وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’وہ سب کچھ جو سالم (غیر منقسم) ہندوستان میں لکھا گیا ہے اس کا مالک کون ہے؟ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا؟ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں؟ کیا ہماری ریاست مذہبی ریاست ہے؟ ریاست کے تو ہم ہر حالت میں وفادار رہیں گے مگر کیا ہمیں حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہو گی؟ آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے؟اس کے بعد منٹو فیض، چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھانوی سے ملے مگر کوئی بھی ان کے سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ اُنھوں نے ہلکے پھلکے مضامین لکھنے شروع کیے جو ’امروز‘ میں شائع ہوئے۔ مضامین کا یہ مجموعہ بعد میں ’تلخ، ترش اور شیریں‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔اسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی نے لاہور سے ’نقوش‘ جاری کیا۔ قاسمی صاحب کی فرمائش پر منٹو نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ تحریر کیا۔منٹو لکھتے ہیں کہ قاسمی صاحب
نے یہ افسانہ میرے سامنے پڑھا۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد اُنھوں نے مجھ سے معذرت بھرے لہجے میں کہا ’منٹو صاحب، معاف کیجیے، افسانہ بہت اچھا ہے، لیکن نقوش کے لیے بہت گرم ہے۔‘چند دن کے بعد قاسمی صاحب کی فرمائش پر منٹو نے ایک اور افسانہ لکھا جس کا عنوان ’کھول دو‘ تھا۔ یہ افسانہ نقوش میں شائع ہوا مگر حکومت نے نقوش کی اشاعت چھ ماہ کے لیے بند کر دی۔ اخبارات میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج ہوا مگر حکومتی حکم اپنی جگہ پر قائم رہا۔جگدیش چندر ودھاون نے اپنی کتاب ’منٹو نامہ‘ میں لکھا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی معذرت کے بعد منٹو نے ’ٹھنڈا گوشت‘ ادب لطیف کے مدیر چودھری برکت علی کو دے دیا مگر پریس کے انکار کی وجہ سے یہ افسانہ اس رسالے میں شائع نہ ہو سکا۔ اس کے بعد منٹو نے یہ افسانہ ممتاز شیریں کو روانہ کیا مگر اُنھوں نے بھی اسے پسند کرنے کے باوجود چھاپنے سے معذرت کر لی۔ممتاز شیریں کے بعد عارف عبدالمتین نے اپنے رسالے جاوید کے لیے منٹو سے ’ٹھنڈا گوشت‘ بہت اصرار سے مانگا۔ اس وقت یہ افسانہ ’سویرا‘ کے مالک چودھری نذیر احمد کے پاس تھا چنانچہ منٹو نے ایک رقعہ ان کے نام لکھ دیا ’یہ جاوید والے اپنا پرچہ ضبط کروانا چاہتے ہیں براہ کرم ان کو ٹھنڈا گوشت کا مسودہ دے دیجیے۔‘عارف عبدالمتین نے یہ افسانہ حاصل کر لیا اور اسے اپنے ادبی رسالے جاوید کے مارچ 1949 کے ایڈیشن میں شائع کر دیا۔ منٹو نے لکھا ہے کہ جاوید پر ایک ماہ بعد ریڈ ہواجبکہ انقلاب
میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق یہ چھاپہ جاوید کی اشاعت کے اگلے ہی دن پڑ گیا۔منٹو کا بیان زیادہ درست محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس وقت تک جاوید کا شمارہ لاہور اور بیرون لاہور تقسیم ہو چکا تھا۔ جاوید کے دفتر پر یہ چھاپہ پریس برانچ کے انچارج چودھری محمد حسین کی ایما پر مارا گیا تھا اور منٹو لکھتے ہیں کہ ’گو ضعیفی کے باعث چودھری محمد حسین کے ہاتھ کمزور ہو چکے تھے مگر اُنھوں نے زور کا ایک جھٹکا دیا اور پولیس کی مشینری حرکت میں آ گئی۔‘ٹھنڈا گوشت منٹو کے لیے بہت گرم افسانہ ثابت ہوا، اس نے منٹو جیسے سخت جان کے کس بل نکال کر رکھ دیے۔ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش ہوا جس کے کنوینر پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے اور بورڈ میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایف ڈبلیو بسٹن، زمیندار کے مولانا اختر علی، نوائے وقت کے حمید نظامی، سفینہ کے وقار انبالوی اور جدید نظام کے امین الدین صحرائی شامل تھے۔چودھری محمد حسین نے بورڈ کے سامنے پرچے کے دیگر باغیانہ اور اشتعال انگیز مضامین پیش کیے مگر بورڈ نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا لیکن نزلہ ٹھنڈا گوشت پر گِرا۔ فیض صاحب نے اسے غیر فحش قرار دیا مگر مولانا اختر علی، وقار انبالوی اور حمید نظامی نے اسے ’ملعون‘ قرار دیا۔فیصلہ یہ ہوا کہ اب معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔چند دن بعد منٹو اور جاوید کے ناشر نصیر انور اور مدیر عارف عبدالمتین گرفتار کر لیے گئے۔ منٹو کی ضمانت ان کے دوست شیخ سلیم نے دی، ممتاز شاعر اور ماہر قانون میاں تصدق حسین خالد نے خود بھی
مقدمے کی پیروی کرنے کی پیشکش کی جو منٹو نے شکریے کے ساتھ منظور کر لی۔مقدمہ مجسٹریٹ اے ایم سعید کی عدالت میں پیش ہوا۔ استغاثے کی جانب سے مسٹر محمد یعقوب، محمد طفیل حلیم، ضیا الدین احمد اور چند دیگر افراد پیش کیے گئے۔ صفائی کے گواہان کے لیے 30 افراد کی فہرست پیش کی گئی تو مجسٹریٹ صاحب نے کہا کہ ’میں اتنا ہجوم نہیں بلا سکتا‘ بہت رد و کد کے بعد وہ 14 گواہ بلانے پر تیار ہوئے جن میں کل سات گواہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ان گواہان میں سید عابد علی عابد، احمد سعید، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر سعید اللہ، فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور ڈاکٹر آئی لطیف نے منٹو کے حق میں بیانات قلمبند کروائے۔عدالت کی جانب سے چار گواہ تاجور نجیب آبادی، آغا شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی اور محمد دین تاثیر پیش ہوئے۔ پہلے تین گواہان نے افسانے کو ’ذلیل، گندا اور قابل اعتراض‘ قرار دیا جبکہ ڈاکٹر تاثیر کا کہنا یہ تھا کہ یہ افسانہ ادبی لحاظ سے ناقص ہے لیکن ہے ادبی۔کچھ ایسے الفاظ ہیں جن کو ناشائستہ کہا جاسکتا ہے لیکن میں غیر اخلاقی اور گندا اس لیے نہیں کہتا کہ لفظ ف ح ش کی تعریف کے متعلق میں خود واضح نہیں ہوں۔ ان گواہان کے بیانات کے بعد منٹو نے اپنا تحریری بیان داخل کیا۔جگدیش چندر ودھاون لکھتے ہیں آخر 16 جنوری 1950 کی تاریخ آن پہنچی۔ عدالت نے ملزمان کو غیر اخلاقی افسانہ لکھنے اور چھاپنے کے الزام میں 300 روپے فی کس جرمانہ کی سزا سنائی اور منٹو کو تین ماہ قید جبکہ نصیر انور اور عارف عبدالمتین کو 21، 21 یوم کی قید
بامشقت کی سزا سنا دی۔ملزمان نے اس فیصلے کے خلاف سیشن عدالت میں اپیل کی جہاں مجسٹریٹ عنایت اللہ خان نے ملزمان کی اپیل منظور کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا اور تینوں ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے ان کا ادا کردہ جرمانہ واپس کرنے کا حکم صادر کر دیا۔مگر حکومت نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس محمد جان نے اپیل کی سماعت کی۔ اُنھوں نے آٹھ اپریل 1952 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ بہت مدلل اور وزنی تھا اور غیر اخلاقی بنیاد پر دیے گئے فیصلوں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔جسٹس محمد منیر نے اس بارے میں پیش کی جانے والی ہر دلیل کا بہت واضح جواب دیا اور فیصلے میں لکھا کہ ٹھنڈا گوشت کا خاکہ بے ضرر ہے مگر تفصیلات اور پیرایہ بیان غیر اخلاقی ہیں چنانچہ سعادت حسن منٹو اور ان کے ساتھیوں کو 300 روپے فی کس جرمانہ یا عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں ایک ماہ قید سخت کی سزا کا حکم سنایا جاتا ہے۔یوں پاکستان کی ادبی اور عدالتی تاریخ کا یہ منفرد مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا۔ٹھنڈا گوشت کا قضیہ ختم ہوا تو چند برس بعد منٹو ایک اور افسانے ’اوپر، نیچے اور درمیان‘ پر چلائے جانے والی بداخلاقی کے ایک اور مقدمے کی زد میں آ گئے۔ یہ افسانہ سب سے پہلے لاہور کے اخبار ’احسان‘ میں شائع ہوا۔ اس وقت تک چودھری محمد حسین وفات پا چکے تھے چنانچہ لاہور میں خیریت رہی مگر بعدازاں جب یہ
افسانہ کراچی کے ایک پرچے ’پیام مشرق‘ میں شائع ہوا تو وہاں کی حکومت حرکت میں آئی اور منٹو کو عدالت میں طلب کر لیا گیا۔یہ مقدمہ مجسٹریٹ مہدی علی صدیقی کی عدالت میں پیش ہوا جنھوں نے صرف چند سماعتوں کے بعد منٹو کو 25 روپے جرمانہ کیا، جرمانہ فوراً ادا کر دیا گیا اور یوں اس آخری مقدمے سے بھی منٹو کی خلاصی ہوئی۔بلراج مین را نے اپنی کتاب ’دستاویز‘ میں لکھا ہے کہ ’مہدی علی صدیقی منٹو کے مداح تھے، اُنھوں نے اگلے روز منٹو کو کافی پینے کی دعوت دی۔ اُنھوں نے کافی کی دعوت کے دوران منٹو سے کہا کہ ’میں آپ کو اس دور کا بہت بڑا افسانہ نگار مانتا ہوں، آپ سے ملنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ یہ خیال دل میں لے کر نہ جائیں کہ میں آپ کا مداح نہیں۔‘منٹو لکھتے ہیں ’میں سخت متحیر ہوا، آپ میرے مداح ہیں تو جناب آپ نے مجھے جرمانہ کیوں کیا؟‘ وہ مسکرائے اور کہا ’اس کا جواب میں آپ کو ایک برس کے بعد دوں گا۔‘ایک برس بعد مہدی علی صدیقی نے اس مقدمے کی روداد ’پانچواں مقدمہ‘ کے عنوان سے ایک ادبی جریدے ’افکار‘ میں شائع کروائی مگر اس وقت تک منٹو وفات پا چکے تھے۔ مہدی علی صدیقی نے مقدمے کی یہ تمام روداد اپنی خود نوشت سوانح عمری ’بلا کم و کاست‘ میں بھی تحریر کی ہے۔مہدی علی صدیقی نے اس مضمون میں لکھا کہ ’1954 کے آخری زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ منٹو نے ایک تازہ مجموعہ مضامین شائع کیا ہے جس کا نام ہے اوپر، نیچے اور درمیان۔‘’مجھے حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی جب لوگوں نے بتایا کہ منٹو نے یہ مجموعہ میرے نام سے معنون کیا ہے۔ ان کی پرخلوص محبت اور بے تکلف اعتبار کا اس سے بہتر ثبوت ملنا مشکل ہے۔ میں ایک غیر معروف سا آدمی خوش ہوں کہ شاید یوں ہی میرا نام ‘نوادر ادبی’ کے روپ میں کچھ دنوں ادبی دنیا میں رہ جائے۔‘