استغفار سے زندگی ہو آسان
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًاؕ(۱۲)ترجمہ: کنزالایمانتو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہےتم پر شرّاٹے کا مینہ(موسلا دھار بارش) بھیجے گااور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغ بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گاتفسیر: صراط الجنا{ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ : تو میں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگو۔} یہاں سے یہ بتایاگیا ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو ترغیب دلا کر بھی اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کفر و شرک سے توبہ کرنے کی دعوت دی ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی دو آیات کاخلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم لمبے عرصے تک آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلاتی رہی تو اللّٰہ تعالیٰ نے اُن سے بارش روک دی اور چالیس سال تک ان کی عورتوں کو بانجھ کردیا، ان کے مال ہلاک ہوگئے
اور جانور مرگئے، جب ان کا یہ حال ہوا تو حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’اے لوگو! تم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ کفر و شرککرنے پر اس سے معافی مانگو اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے مغفرت طلب کرو تاکہ اللّٰہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت میں مشغول ہونا خیر و برکت اور وسعت ِرزق کا سبب ہوتا ہے اور کفر سے دنیا بھی برباد ہو جاتی ہے، بیشک اللّٰہ تعالیٰ اُسے بڑا معاف فرمانے والا ہے جو (سچے دل سے) اس کی بارگاہ میں رجوع کرے، اگر تم توبہ کر لو گے اور اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کرکے صرف اسی کی عبادت کرو گے تو وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا اور مال اور بیٹوں میں اضافے سے تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات بنادے گا اور تمہارے لیے نہریں بنائے گا تاکہ ان سے تم اپنے باغات اور کھیتیوں کو سیراب کرو۔( تفسیر طبری ، نوح ، تحت الآیۃ : ۱۰-۱۲ ، ۱۲ / ۲۴۹ ، خازن ، نوح ، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ۴ / ۳۱۲، مدارک، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۲، ص۱۲۸۳، ملتقطاً)اِستغفار کرنے کے دینی اور دُنْیَوی فوائد:اس سے معلوم ہو
ا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اِستغفار کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے سے بے شمار دینی اور دُنْیَوی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔اِستغفار کرنے کے بارے میں ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (النساء:۱۱۰)ترجمۂکنزُالعِرفان: اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللّٰہ سے مغفرت طلب کرے تو اللّٰہ کو بخشنے والا مہربان پائے گا۔اورارشاد فرمایا:’’ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘(انفال:۳۳)ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اللّٰہ انہیں عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگ رہے ہیں ۔اور ارشاد فرمایا: ’’وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘ (ہود:۳)ترجمۂکنزُالعِرفان: اور یہ کہ اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف توبہ کروتو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہت اچھا فائدہ دے گا۔حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا: وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ (ہود:۵۲)ترجمۂکنزُالعِرفان: اور اے میری قوم! تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو تووہ تم پرموسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت کے ساتھ مزید قوت زیادہ کرے گا۔اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،
رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے استغفار کو اپنے لئے ضروری قرار دیا تو اللّٰہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہ ہو گا۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب الاستغفار، ۴ / ۲۵۷، الحدیث: ۳۸۱۹)یاد رہے کہ اولاد کے حصول،بارش کی طلب،تنگدستی سے نجات اور پیداوار کی کثرت کے لئے استغفار کرنا بہت مُجَرَّبْ قرآنی عمل ہے۔اسی سلسلے میں یہاں دو حکایات ملاحظہ ہوں ،چنانچہ حضرت ِامامِ حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک مرتبہ حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ایک ملازم نے کہا کہ میں مالدار آدمی ہوں مگر میرے ہاں کوئی اولاد نہیں ، مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے اولاد دے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: استغفار پڑھا کرو۔ اس نے استغفار کی یہاں تک کثرت کی کہ روزانہ سا ت سو مرتبہ استغفار پڑھنے لگا، اس کی برکت سے اس شخص کے ہاں دس بیٹے ہوئے، جب یہ بات حضرت امیر ِمعاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا کہ تو نے حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ کیوں نہ دریافت کیا کہ یہ عمل حضور نے کہاں سے فرمایا
۔دوسری مرتبہ جب اس شخص کو حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو اس نے یہ دریافت کیا ۔حضرتِ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ تو نے حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا قول نہیں سنا جو اُنہوں نے فرمایا: ’’ وَ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ ‘‘ اور حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ ارشاد نہیں سنا: یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ ۔( مدارک، ہود، تحت الآیۃ: ۵۲، ص۵۰۲)اسی طرح حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے بارش کی قلت کی شکایت کی ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اسے استغفار کرنے کا حکم دیا، دوسرا شخص آیا اور اس نے تنگ دستی کی شکایت کی تو اسے بھی یہی حکم فرمایا، پھر تیسرا شخص آیا اور اُس نے نسل کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا، پھر چوتھا شخص آیا اور اس نے اپنی زمین کی پیداوار کم ہونے کی شکایت کی تو اس سے بھی یہی فرمایا ۔حضرت ربیع بن صبیح رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ جو کہ وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کی: آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس چند لوگ آئے اور انہوں نے طرح طرح کی حاجتیں پیش کیں ، آپ نے سب کو ایک ہی جواب دیا کہ استغفار کرو؟تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کے سامنے یہ آیات پڑھیں: ’’اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًاۙ(۱۰)یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًاۙ(۱۱)وَّ یُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ یَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْهٰرًا‘‘(خازن، نوح، تحت الآیۃ: ۱۰-۱۱، ۴ / ۳۱۲، تفسیر ثعلبی، نوح، تحت الآیۃ: ۱۲، ۱۰ / ۴۴)