اگر عمران خان کے خلاف سازش واقعی امریکہ نے کی ہے تو اب وہ شہباز شریف سے اڈے بھی مانگے گا ، مگر پھر کیا طوفان آئے گا ؟ پاک آرمی کے ریٹائرڈ کرنل کی معلوماتی تحریر
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اور پاک فوج کے سابق افسر لیفٹننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔منگل وار (26اپریل 2022ء) پرائم منسٹر ہاؤس میں سینئر صحافیوں سے افطار ڈنر میں بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے
ہم اس کو ناراض نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا کہ گزشتہ پی ٹی آئی حکومت نے امریکہ کو ناراض کرکے ایک غلط (Faulty) قدم اٹھایا تھا، موجودہ حکومت ایسا نہیں کرے گی۔اس افطار ڈنر میں اور بھی کئی باتیں ہوئیں جن پر الگ الگ کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ کالم کیا ہوتے ہیں؟…… بعض صاحبانِ عقل و ہوش کی طرف سے دل کی بھڑاس نکالنے کا سامان ہی تو ہوتے ہیں۔ بعض کالم نگار حضرات اپنی ’اوقات‘ سے بڑھ کر تمام حدوں کو کراس کر جاتے ہیں۔ خود کو وزیراعظم (یا صدر) کے شانہ بشانہ کھڑا کر لیتے ہیں اور ایسے ایسے نکات اٹھاتے ہیں کہ جن کو سن اور پڑھ کر افسوس ہوتا ہے۔میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ امریکہ واقعی ایک بہت بڑا ملک ہے اور ہمیں اس کو ’ناراض‘ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس ناراضگی کا طول و عرض اور حجم کس نے طے کرنا ہے؟ سابق وزیراعظم نے بار بار یہ کہا تھا کہ پاکستان کسی بھی چھوٹے بڑے ملک کو ناراض کرنا نہیں چاہتا، صرف برابری کے تعلقات چاہتا ہے۔ یہ خواہش تمام ملکوں کے عوام کی خواہش ہے۔ اس خواہش کو روندنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر پاکستان چین اور روس سے تعلقات بڑھانا چاہتا ہے تو امریکہ کو اس پر جزبز ہونے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان۔ امریکہ روابط کی ایک تاریخ ہے۔ اس کے نشیب و فراز سے پاکستان کا ہر شہری واقف ہے۔ لیکن یہ روابط پاکستان کو امریکہ یا کسی اور بڑے ملک کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ
پاکستان پر اپنی سٹرٹیجک خواہشات مسلط کرے۔ پاکستان کی اپنی سٹرٹیجک یا ٹیکٹیکل خواہشات بھی ہیں، ان کا فیصلہ 22کروڑ عوام نے کرنا ہے۔ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی امریکہ کو ”رجیم چینج“ کا ٹھیکہ نہیں دیا جا سکتا۔ ماضی میں نون لیگ اور پی پی پی کی حکومتیں آتی جاتی رہیں اور ان میں پاک۔ امریکہ تعلقات پر ہمیشہ کھل کھلا کر بحث بھی ہوتی رہی۔ اب اگر پی ٹی آئی نے اس بحث کا بیڑا اٹھایا تھا تو کیا بُرا کیا تھا؟ روس، پاکستان کو گندم اور تیل دنیا بھر کے مقابلے میں 30فیصد کم نرخوں پر دے رہا تھا۔ پاکستان نے ماسکو جا کر پوٹن سے ایس۔400 یا سرمٹ (Surmat) آئی سی بی ایم (ICBM) نہیں مانگے تھے۔ عمران خان نے تو پاکستان کی معاشی حالت کے مطابق روس سے یہ اشیاء خریدنے کے لئے یہ اقدام کیا تھا۔ یوکرائن والا ،معاملہ ، روس کا اپنا داخلی معاملہ تھا۔ پاکستان نے روس کو یہ نہیں کہا تھا کہ یوکرائن پر دھاوا بول دو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن امریکہ کے بائیڈن نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان ماضی میں چین سے JF-17 اور J-10C خریدتا رہا ہے اور اپنی عسکری استعداد بڑھا رہا ہے، دیامر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم اور مہمند ڈیموں کے علاوہ سات آٹھ دوسرے ڈیم بنا کر مستقبل قریب میں سستی بجلی پیدا کرنے کی طرف گامزن ہے اور CPEC کے توسط سے سپیشل اقتصادی زون تعمیر کر رہا ہے اور اس کے مقابلے میں امریکہ کو ”گھاس“ نہیں ڈال رہا
تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ پاکستان، امریکہ کو ناراض کر رہا ہے۔ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ دوستی اور دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ چین بے شک پاکستان کی عسکری قوت میں اساسی اضافہ کر رہا ہے۔ہتھیاروں کی پیداوار میں جتنی مدد چین نے پاکستان کی کی ہے اس سے کون ’کافر‘ انکار کر سکتا ہے؟امریکہ، چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی کے بڑھتے ہوئے نشانات دیکھتا رہا اور ناراض ہوتا رہا۔ وجہ یہ تھی کہ ان ”نشانات“ کی نشاندہی میں نہ صرف پی ٹی آئی شامل تھی بلکہ ملک کی دو دوسری بڑی سیاسی پارٹیاں بھی شریکِ کار تھیں۔ امریکہ کی ناراضگی کی اصل وجہ اب اس اونٹ کی پیٹھ پر روس کے ساتھ تعلقات کا آغاز ایک آخری تنکا ثابت ہوا…… روس، چین اور پاکستان تینوں جوہری ممالک ہیں۔ ان کا ایک نیا بلاک بننے جا رہا تھا۔ ہرچند سابق وزیراعظم کئی بار اس بلاک میں پاکستان کی عدم شمولیت کا اظہار کر چکے تھے۔ لیکن امریکی تھنک ٹینک جس طوفان کی خبر دے رہے تھے وہ نوشتہء دیوار تھا۔تاریخ اٹھا کر دیکھیں، کوئی ملک اس لئے چھوٹا بڑا نہیں ہوتا کہ اس کا رقبہ زیادہ یا کم ہوتا ہے یا اس کی آبادی زیادہ یا کم ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی عظمت کی اساس اس کی عسکری قوت ہوتی ہے۔ برطانیہ کا رقبہ اور آبادی دیکھ لیں لیکن وہ مسلسل تین صدیوں تک دنیا کی واحد سپرپاور بنا رہا۔ اب دوسری ورلڈ وار کے بعد سے امریکہ ایک سپرپاور ہے لیکن اس کا مقابلہ جس دوسری سپرپاور سے ہے
(یا ہو سکتا ہے) وہ رشین بلاک ہوگا جس میں چین اور پاکستان شامل ہو سکتے ہیں۔ عمران خان نے تو ببانگ دہل اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان نے اپنا مستقبل چین سے وابستہ کر لیا ہے…… خان صاحب کی یہی غلطی تھی جس کی سزا انہیں دی گئی اور شہباز شریف اپنے افطار ڈنر میں اسی ’غلطی‘ کا ازالہ کر رہے تھے۔آج کی دنیا ایک گلوبل گاؤں ہے۔ روس کی گیس اور اس کا تیل 55% یورپی ممالک کی ضروریات کا کفیل ہے۔ اسی طرح چین کو بھی امریکہ کی بڑی مارکیٹ کی ضرورت ہے اور پاکستان کی زیادہ تر برآمدات کا خریدار بھی امریکہ ہے۔ اپنے ان کالموں میں کئی بار سوال کر چکا ہوں کہ کیا روس اور چین دونوں مل کر ان برآمدات کی برابری کر سکتے ہیں جو ہم امریکی مارکیٹ میں بھیج کر زرمبادلہ حاصل کر رہے ہیں؟…… عمران خان نے بہت جلد بازی سے کام لیا۔ ان کو چاہیے تھا کہ وہ تھوڑا صبر کر لیتے۔…… ان کی دوسری غلطیاں بھی ہوں گی۔ وہ اگر سولو فلائٹ کے عادی تھے تو کاروبارِ حکومت میں کو پائلٹ (Co-Pilot) کو ساتھ بٹھانا بھی تو ماڈرن پروازی اہلیت شمار ہوتا ہے۔آج نہیں تو آنے والے کل میں امریکہ کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ رجیم چینج کے پاکستانی عمل میں اس کی سپورٹ کا کتنا دم خم ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ امریکہ، پاکستان سے ان اڈوں (Bases)کا مطالبہ نہ کرے جو اس کی مشرق وسطیٰ یا جنوبی ایشیاء کے اس خطے میں عملداری کے لئے از بس ناگزیر ہوگا۔ لیکن جونہی امریکہ نے اس طرف قدم بڑھایا، موجودہ حکومت لاکھ امریکہ کے ساتھ ہو، عوامی مخالفت کا سیلِ رواں اس کی اجازت نہیں دے گا۔ عمران خان نے ”ہرگز نہیں“ کا جو نعرہ لگایا تھا۔ وہ اب پاکستانی عوام کی اکثریت کی زبان پر ہوگا۔ مستقبل کی یہ ”جدو جہد آزادی“ پاکستان کی ایک نئی قسم کی لڑائی ہوگی۔ یہ پاکستانی عوام میں اس شعور کی عطا ہوگی جو اس کو عمران خان کی قیادت نے دے دیا ہے…… امریکہ کو بہت جلد ایک اور رجیم چینج کا سامنا ہوگا!…… آپ دیکھتے جائیے!!