’’چوروں، ڈاکووں‘‘ کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا،مدینہ واقعہ پر سینئر کالم نگار انصار عباسی بھی مسجد نبوی وقعہ پر میدان میں آگئے
اسلا م آباد(ویب ڈیسک)انصار عباسی اپنے کالم میں لکھتے ہیں جو واقعہ مسجد نبویﷺ میں رونما ہوا وہ بغیر کسی اگر مگر کے انتہائی قابلِ مذمت اور شرمناک تھا، جس گندی سیاست اور نفرت کا بیج ہم نے اپنے معاشرے میں بو دیا ہے اُس کا یہ بھی نتیجہ نکل سکتا تھا،4
کبھی سوچا نہ تھا۔ وہ لوگ جو اس واقعہ میں ملوث تھے اُن کو سعودی حکومت کے ذریعے قانون کی گرفت میں لایا جائے تا کہ آئندہ ایسا کرنے کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ اس واقعہ سے بڑی تعداد میں مسلمانوں کا دل دکھا، وہ رنجیدہ ہوئے کہ یہ گندی سیاست کس مقدس مقام پر کی۔ مجھے افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اسی گندی سیاست کے زیر اثر ایسے لوگ بھی دیکھے جو اس واقعہ کو اگر مگر لگا کر یا سیدھا سیدھا کہہ رہے ہیں کہ
’’چوروں، ڈاکووں‘‘ کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا اور یہ بھی کہ یہ تو لوگوں کا غصہ تھا جو حکومتی وزراء پر نکلا۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ عمران خان کا اس واقعہ پر ردِ عمل آنے میں کچھ دن لگے اور اس پر بھی اُنہوں نے اگرچہ یہ کہا تھا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنی مقدس جگہ پر لوگوں کو آوازے کسنے کی ہدایت دوں لیکن واقعہ کے حوالہ سے کہا کہ جو ہوا وہ ان کے(حکومتی ممبران جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا) اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ عمران خان جنہوں نے اسلاموفوبیا کے خلاف بہت کام کیا اور کامیابی بھی حاصل کی، وہ جب مدینہ شریف جاتے ہیں
تو جوتے تک اُتار دیتے ہیں، اُن کو تو اس واقعہ کی پرزور مذمت کرنی چاہیے تھی اور یہ کہنا چاہیے تھا کہ کسی مسلمان کے ساتھ سیاسی اختلاف یا نفرت کی بنیاد پر کسی دوسرے مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس مقدس مقام پر کوئی ایسا عمل کرے جو بے حرمتی کے زمرے میں آتا ہو ۔
وہاں پر صرف نعرے نہیں لگائے گئے بلکہ گالی بھی دی گئی۔ کئی بدقسمت اس بات پر بھی اتراتے ہیں کہ ان ’’چوروں‘ ڈاکووں ‘‘ کو بھگا دیا، اُنہیں نماز بھی نہیں پڑھنے دیں گے۔ اس سارے عمل اور رویے کی خان صاحب کو مذمت کرنی چاہیے تھی۔ قابلِ تحسین ہیں مریم اورنگ زیب جن کا کہنا تھا کہ اُن کے خلاف لگائے جانے والے نعروں کے جواب میں اُنہوں نے ایسا کرنے والوں کی ہدایت کے لیے دعا کی۔ حرمین شریفین سب مسلمانوں کے لیے عبادت اور دعا کے لیے مقدس ترین مقامات ہیں جہاں جو کوئی جاتا ہے وہ اپنے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہے، درود و سلام پیش کرتا ہے۔ ہم تو سیاسی اختلاف کی بنیاد پر اپنے مخالفوں کو چور ڈاکو کہتے ہیں، ہر قسم کا الزام لگا دیتے ہیں اور پھر اُس الزام کو سچ بھی مان لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بڑے سے بڑے مجرم اور گناہگار کے لیے حرمین شریفین کے دروازے کھلے ہیں اور کوئی کسی کو روک نہیں سکتا۔
یہ کیسی سیاسی نفرت ہے کہ ان مقدس ترین مقامات پر مخالفین کے خلاف نعروں اور گالیوں تک تک کی بھی کوئی نہ کوئی توجیہ پیش کر کے اس عمل کو justify کیا جائے۔ اگر کبھی ماضی میں کسی نے عمران خان کے خلاف ان مقدس مقامات پر نعرہ لگایا اور اس پر کسی ن لیگی رہنمانے کوئی طعنہ عمران خان کو دیا تو وہ بھی غلط، قابلِ مذمت اور شرمناک تھا۔ اس گندی سیاست کو اگر ہم پاکستان کے اندر ختم نہیں کر سکتے تو اس گندگی کو کم از کم ان مقدس مقامات سےتو دور رکھیں۔
افسوس کہ تحریک انصاف کے ایسے بھی رہنما ہیں جنہوں نے واقعہ کی قابل مذمت اور شرمناک ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر لوڈ کر کے اپنے مخالفین کو ایسے طعنے دیے جیسے کوئی بڑا اچھا کام کیا گیا ہو۔ افسوس کا مقام یہ بھی ہے کہ عام لوگ بھی معاشرے کی نفرت سے آلودہ موجودہ سیاسی تقسیم کے لحاظ سے ہی اس واقعہ پر اپنا اپنا ردعمل دے رہے ہیں۔ ہم نجانے اور کتنا گریں گے؟ میرا اس واقعہ سے بہت دل دکھا۔ مجھے نہیں معلوم ہماری سیاست کی یہ موجودہ نفرت ہمیں کہاں لے جائے گی۔ اس گندگی، اس نفرت کو روکنا چاہیے ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے۔ اور جو قابلِ مذمت واقعہ ہم نے دیکھا اُس سے تو لگتا ہے کہ سیاست کی خاطر کہیں ہم دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی داؤ پر نہ لگا دیں۔