”سن لو اتنی دولت ملے گی کہ زندگی بدل جائے“
ذکرِ الٰہی انوار کی کنجی ہے، بصیرت کا آغاز ہے اور جمال فطرت کا اقرار ہے۔ یہ حصول علم کا جال ہے۔ یہ تماشہ گاہ ہستی کی جلوہ آرائیوں اور حسن آفرینیوں کا اقرار ہے۔ ذاکر کے ذکر میں زاہد کے فکر میں خالق ِ آفاق کی جھلک نظر آتی ہے۔ ذکر الٰہی دراصل خالق حقیقی سے رابطے کی ایک شکل ہے۔امام بغوی ؒ (شرح السنہ) میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول
اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما، جس کے ذریعے مَیں ترا ذکر کروں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰلا الہ الا اللہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہی کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں،مَیں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کہ اے موسی علیہ السلام! اگر ساتوں آسمان اور میرے سوا وہ سب کائنات جس سے زمین کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اورلا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں،لا الہ الا اللہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہو گا“۔ حضور اکرم کی عادات مبارکہ:دوام ذکر الٰہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ ہر لحظہ اور لمحہ اللہ کی یاد میں مصروف رہتے تھے۔ ابن ماجہ میں لکھا ہے کہ
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی ؓ رات کو آپ کے آستانہ اقدس پر پہرہ دیتے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی تسبیح اور تہلیل کی آواز سنتے سنتے میں تھک جاتا تھا اور مجھے نیند آ جاتی تھی۔ بقول علامہ شبلی نعمانی ؒ اور علامہ سید سلیمان ندوی ؒ (سیرت النبی :جلد سوم) صفحہ158):”اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، سوتے، جاگتے، وضو کرتے، نئے کپڑے پہنتے، سوار ہوتے، سفر میں جاتے، واپس آتے، گھر میں داخل ہوتے، مسجد میں قدم رکھتے، غرض ہر حالت میں دل و جان ذکر الٰہی میں مصروف رہتے“۔آپ سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل ادا فرماتے۔ سواری کا جانور جدھر چل رہا ہے آپ ادھر ہی چہرہ مبارک نماز کی نیت فرما لیتے۔ اس کی پرواہ نہیں فرماتے تھے کہ قبلہ کی طرف رُخ ِ مبارک ہے یا نہیں۔ آپ میدانِ جنگ میں بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں تھے۔ بدر کے غزوہ میں خشوع و
خضوع سے دونوں ہاتھ پھیلا کر بارگاہِ ایزدی میں دُعا کر رہے تھے۔ اس بے خودی کے عالم میں ردائے مبارک کندھے سے گر پڑی اور حضور کو خبر تک نہیں۔ حضرت علی ؓ تین بار میدان جنگ میں حاضر ہوتے ہیں اور ہربار یہ دیکھتے ہیں کہ پیشانی مبارک زمین پر ہے۔ دور حاضر کی بے سکونی اور ذکر الٰہی: دورِ حاضر میں بے سکونی کی کیفیت ذکر الٰہی سے بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ اہل مغرب کے ہاں خود کشیاں روحانیت سے فرار کی وجہ سے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی بے سکونی یاد الٰہی سے غفلت کی و جہ سے ہے۔ نت نئی جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں یادِ الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلا شبہ ذکر الٰہی سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ بلاشبہ ذکر الٰہی دلوں کو سکون بخشتا ہے۔ سورہ¿ عنکبوت کی آیت45میں ارشاد ربانی ہے:”اور یقین کرو کہ اللہ کا ذکر ہر چیز سے بزرگ تر ہے“۔اللہ
کے ذکر میں نماز، تلاوت ِ قرآن حکیم، دُعا اور استغفار سب شامل ہیں ” جب بھی اور جہاں بھی کچھ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت ِ الٰہی ان پر چھا جاتی ہے اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے اور ان پر سکینہ کی کیفیت نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے مقربین فرشتوں میں ان کا ذکر کرتے ہیں (صحیح مسلم)بخاری شریف میں بحوالہ حضرت ابو ہریرہ ؓ درج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو اس وقت مَیں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں“۔ ۔ بقول حافظ ابن القیم (بحوالہ مدارج السالکین) ذکر اللہ کی بڑی عظمت، اہمیت اور برکات ہیں۔ ذکر اللہ سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی
ہوتی ہے۔ ذکر ِ اللہ سے قلوب منور ہو جاتے ہیں۔ ذکرِ اللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے جس کے ذریعے ایک بندہ بارگاہ الٰہی تک پہنچ سکتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاشیئر کریں