in

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پینے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پینے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پینے کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس باب الرحبہ میں پانی لایا گیا، تو انہوں نے کھڑے ہو کر پیا اور فرمایا: کہ لوگوں میں سے بعض کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایسا ہی) کرتے دیکھا، جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا۔ صحیح بخاری:جلد سوم: مشروبات کا بیان حضرت ابن عباس رض سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو

زمزم کا پانی پلایا تو آپ نے اسے نوش فرمایا جب کہ آپ کھڑے ہوئے تھے(بخاری) تخریج: صحیح بخاری، کتاب الحج، باب ماجاء فی زمزم، ح:1637- صحیح المسلم، کتاب الاشربۃ، باب فی الشرب من زمزم قائما، ح:2027- حضرت ابن عمر رض سے روایت ہے کہ ہم نبی؛ ۖ کے زمانے میں چلتے چلتے کھالیتے اور کھڑے کھڑے پانی پی لیتے تھے- (ترمذی، حسن صحیح)تخریج: صحیح- سنن ترمذی، ابواب الاشربۃ، باب ماجاء فی النھی فی الشرب قائما، ح:188- اسے ابن حبان (موارد 1369) نے صحیح کہا ہے۔

(١) ابو ھریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( لَا یَشْرَبَنَّ اَحَدٌ مِنْکُمْ قَائِمًا) ( تم میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر ہر گِز نہ پیے )(٢) ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہُ کی روایت ہےنہی عن الشُّرْبِ قَائِمًا ) ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا )اور اِن ہی کی دوسری روایت ہے( اَنَّ النبی صلی اللَّہ عَلِیہ وَسلم زَجَرَ عن الشُّرْبِ قَائِمًا ) ( نبی( اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا )(٣) بالکل یہی الفاظ انس رضی اللہ عنہُ نے بھی روایت کیئے ہیں ، اور (٤) اِن کی دوسری روایت کے الفاظ ہیں( اَنَّہُ نہی اَنْ یَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا )::: قال قَتَادَۃُ فَقُلْنَا فَالْاَکْلُ ::: فقال ذَاکَ اَشَرُّ او اَخْبَثُ ::: ( رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے منع فرمایا کہ کوئی شخص کھڑا ہو کر پیے ) ::: قتادہ (انس رضی اللہ عنہُ سے روایت کرنے وعالے ، تابعی کہتے ہیں ہم نے کہا ( تو کھڑے ہو کر) کھانے کا کیا حُکم ہے،

تو انس ( رضی اللہ عنہُ ) نے کہا کھانا تو پینے سے بڑھ کر شر والا اور زیادہ گندہ کام ہے :::مندرجہ بالا تمام رویات صحیح مسلم / کتاب الاشربۃ / باب ١٤کراھیۃ الشُّربُ قائماً ، کی ہیں ، اِن احادیث سے جو باتیں بڑی وضاحت سے سمجھ میں آتی ہیں وہ یہ کہ :::(١) کھڑے ہو کر کچھ بھی پینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور ،(٢) اس سختی سے منع فرمایا ہے کہ پی گئی چیز کو قے( یعنی اُلٹی) کر کے جِسم سے نکال دینے کا حُکم فرمایا ہے ،(٣) یہ حُکم کِسی بھی چیز کے لیے ہیں ، صِرف پانی کے لیے نہیں ،کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا حُکم کراہت کا درجہ رکھتا ہے نہ کہ حرام کا ، اُن کا ایسا کہنا درست نہیں ، کیسے درست نہیں اِس کا ذِکر اِنشاء اللہ آگے آئے گا ، ایسا کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ ( علی رضی اللہ عنہُ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور فرمایا ، لوگ کھڑے ہو کر پینا مکروہ سمجھتے ہیں لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے اِس لیے کھڑے ہو کر پیا ہے ) صحیح البُخاری /کتاب الاشربۃ / باب١٥الشُّربُ قائماً(٥)اور دوسری دلیل عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا ہے کہ( سَقَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللَّہ عَلِیہ وَسلم من زَمْزَمَ فَشَرِبَ وہو قَائِمٌ ) ( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو

زمزم پلایا اور انہوں نے پیا اور وہ کھڑے تھے ) صحیح مسلم / کتاب الاشربۃ / باب ١٥کھڑے ہو ک پینے کے اجازت دینے والے ، خواہ مکروہ کہہ کر یا عام اجازت دینے والے اِن دو احادیث کو دلیل بناتے ہیں ، حیرت کی بات ہے کہ پہلی حدیث جو علی رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے یہ لوگ اُس میں علی رضی اللہ عنہُ کے اِلفاظ پر غور کیے بغیر فتویٰ دیے ہوئے ہیں ، اور اُسی پر عمل اور اُسی کو نشر کیے جا رہے ہیں ، جبکہ اِس روایت میں علی رضی اللہ عنہُ نے یہ کہا کہ”’ لوگ کھڑے ہوکر پانی پینا مکرو سمجھتے ہیں ”’ یہ اِلفاظ اس چیز کی واضح دلیل ہیں کہ علی رضی اللہ عنہُ تک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت نہیں پہنچی ورنہ کسی ایک عام سے صحابی کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اُس تک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات پہنچی ہو اور وہ اس کے خلاف کام کرے چہ جائیکہ علی رضی اللہ عنہُ جیسے صحابی ،کوئی اِیمان والا علی رضی اللہ عنہُ کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اُن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حُکم پہنچا ہو اور وہ اُس پر عمل نہ کریں ،تو علی رضی اللہ عنہُ کے مذکورہ بالا اِلفاظ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ ان تک یہ بات لوگوں کی بات کی حیثیت سے پہنچی ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے طور پر، جیسے کہ مسند احمد / حدیث ٩٧٠ میںہے کہ علی رضی اللہ عنہُ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا ”’ کہاں ہیں وہ لوگ جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ وہ کھڑے ہو کرپینے کو مکروہ سمجھتے ہیں”’ یہ بات میری اِس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ علی رضی اللہ عنہُ نے لوگوں کی بات پر اِنکار کرتے ہوئے کھڑے ہو کر پانی پیا کیونکہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تھا اور ممانعت کا حُکم اُن تک نہیں پہنچا تھا ،اگر علی رضی اللہ عنہُ کے اس قول کو وقتی طور پہ نظر انداز بھی کر لیا جائے تو بھی یہ بات ”’ عِلم اصول الفقہ ”’ میں مُقرر ہے کہ ”’کسی بھی صحابی کا کوئی ایسا قول یا فعل جو قرآن یا کسی صحیح (قولی یا فعلی)حد یث کے خلاف ہو وہ

کوئی حجت نہیں ہوتا”’ تو علی رضی اللہ عنہُ کی اِن روایات میں سے علی رضی اللہ عنہُ کا کھڑے ہوکر پینے سے ممانعت پر اِنکار کرنا ، کھڑے ہوکر پینے کی اجازت دینے والوںکے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ، جی ہاں دلیل کے طور پر علی رضی اللہ عنہُ کا یہ قول اِستعمال کِیا جا سکتا ہے کہ ”’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا ہے ”’اور یہ ہی بات عبداللہ ابن عباس والی دوسری روایت میں بھی ہے ، یہاں تک ہمارے سامنے دو باتیں ظاہر ہوئِیں(١) ایک تو یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم کہ کھڑے ہو کر کچھ بھی نہ پیا جائے اور (٢)دوسرا ان کا اپنا فعل اپنے اس حکم کے مُخالف نظر آتا ہے ،کوئی بھی ایسی دو صحیح روایات جو بظاہرایک دوسرے کے مُخالف نظر آتی ہوں اِن کا اِختلاف تین قِسموں میں ہوتا ہے ، اور اِس کو حل کرنے کے لیے تین قانون بنائے گئے ہیں ”’ عِلم اصول الفقہ ”’ میں اِس معاملے کی تفصیل ائمہ نے بیان کی ہے لیکن ان قوانین کی طرف اس وقت جایا جاتا ہے جب حقیقت میںکوئی اِختلاف ہو یعنی کوئی ایسی صحیح حدیث مُیسر نہ ہو جو اختلاف کی وضاحت کر کے اس کے لیے کوئی اور حل ظاہر نہ کرتی ہو ،(ناسخ و منسوخ کا معاملہ بھی اِسی حل کے ضمن میں آتا ہے) تو ایسی صورت میں اُن قوانین کی طرف جایا جاتا ہے، یہ چیزیں فق ”’ عِلم اصول الفقہ ”’ میں موجود ہیں اور اِس عِلم کے ائمہ کی کتابو ں ملکھی ہوئی ملتی ہیں ”’ عِلم اصول الفقہ ”’ میں اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے ،ہم اِس وقت جو مسئلہ سمجھ رہے ہیں ہیں، یعنی ”’کھڑے ہو کر پینے کا مسئلہ ”’ اِس میں نظر آنے والے اِختلاف کا حل ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بتا دیا گیا ہے ،اور وہ یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا سبب بیان فرما دِیا ، اور وہ سبب یہ ہے کہ جو کوئی بھی کھڑے ہو کر پیتا ہے شی-ط-ان اُس کے پینے میں شامل ہوجاتا ہے ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کر پیتے دیکھا تو فرمایا (قِہ ، قے کرو( یعنی جو پیا ہے اُسے اُلٹی کر کے نکال دو)) اُس نے عرض کِیا:::کیوں ؟::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ا یُسُرُّکَ ان یَشرِبَ مَعکَ الھِر؟ کیا تُمہیں یہ بات خوشی دے گی کہ تمہارے ساتھ بِلا پیے ؟) اُسنے کہا :::جی نہیں ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( فاِِنَّہ ُ قَد شَرِبَ مَعکَ مَن ھُوَ شَرٌّ مِنہُ ؛ الشی-طان ،، ے شک (تمہارے کھڑے ہو کر پینے کی وجہ سے ) بِلے سے زیادہ شر والا تمہارے ساتھ پی چُکا ہے ، اور وہ ہے شی-ط-ان ) مُسند احمد / حدیث ٧٩٩٠ ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دیا ، سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ / ضمن حدیث ١٧٥ ،اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ کھڑے ہو کر پینے والے کے ساتھ شی-ط-ان شامل ہوتا ہے اور اِسی وجہ سے کھڑے ہو کر پینے سے منع فرمایا اور شدت سے منع فرمایا ،کھڑے ہو کر

پینے کی ممانعت کا سبب جاننے کے بعد یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خُود جو کھڑے ہو کر پیا ہے تو اِس کی کیا وجہ ہے ؟عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ما مِنکُم من اَحَدٍ اِلا وقد وُکِّلَ بِہِ قَرِینُہُ من الجِنِّ )::: قالوا وَاِِیَّاکَ یا رَسُولَ اللَّہِ ::: قال ( وَاِِیَّایَ اِلا اَنَّ اللَّہَ اَعَانَنِی علیہ فَاَسلَمَ فلا یَامُرُنِی اِلا بِخَیرٍ) ( تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ جنات میں سے ایک جن نہ لگا دیا گیا ہو) صحابہ نے عرض کیا کہ::: اورآپ اے اللہ کے رسول ؟ ::: تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( ہاں میں بھی لیکن میرا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے میری مدد کی اور میرے ساتھ جو جن لگا گیاتھا اُس نے اسلام قبول کر لیا لہذا وہ مجھ سے سوائے خیر کے اور کوئی بات نہیں کرتا ) صحیح مُسلم / حدیث ٢٨١٥ / کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار / باب ١٦،اوراِسی باب میں اِیمان والوں کی والدہ

محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے کہیں گئے تو ( یہ سوچ کر کہ شاید وہ صلی اللہ علیہ وسلم کِسی دوسری بیگم کے پاس گئے ہیں )عائشہ رضی اللہ عنہا کو اِس پر غُصہ آیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی حالت دیکھ کر فرمایا (کیا ہوا عائشہ کیا تمہیں غُصہ آ رہا ہے؟) عرض کیا ::: میری جیسی کو آپ جیسے پر غُصہ کیوں نہ آئے؟::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کیا تمہارا شی-ط-ان آیا ہے؟) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کِیا ::: کیا میرے ساتھ ش-ی-ط-ا-ن ہے ؟::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ہاں ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::: کیا ہر انسان کے ساتھ ش-ی-ط-ا-ن ہوتا ہے؟ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ہاں ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے عِرض کِیا ::: اے اللہ کے رسول کیا آپکے ساتھ بھی؟ :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے

فرمایا ( ہا ں میرے ساتھ بھی لیکن میرے رب نے میری مدد کی حتیٰ کہ میرے ش-ی-ط-ان نے اسلام قبول کر لیا ) صحیح مُسلم / حدیث ٢٨١٥ / کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ النار / باب ١٦،اِن دو احادیث سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ (١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اور مخلوق نہیں تھے بلکہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اِنسان تھے ، (٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر اِنسان کی طرح جِنوں میں سے ایک ش-ی-ط-ا-ن جِن لگا یا گیا تھا لیکن اللہ کی خاص مدد سے جو کِسی بھی اور کے لیے نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیے خاص تھی ،وہ مُسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان ہو گیا ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صِرف خیر والی بات کرتا تھا ، اور یہ ہی اِس بات کی دلیل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے میں شامل نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ اُن صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع فرمان

ہو چکا تھا ، جبکہ کوئی بھی دوسرا اِس بات سے محفوظ نہیں کہ اُس کا شی-ط-ان اُس کے پینے میں شامل نہ ہو ، لہذا کِسی بھی دوسرے کے لیے کھڑے ہو کر پینے کی مُمانعت برقرار رہے گی ،حاصل کلام ::: یہ ہوا کہ کھڑے ہو کر کُچھ بھی پینا ہر اُمتی کے لیے حرام ہے ، اِس کی حِکمت ش-ی-ط-ان- کی شراکت سے محفوظ رہنا ہے ،کچھ لوگ اِس معاملے کو طبی فائدے کے ساتھ بیان کر کے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں قطع نظر اِس کے کہ جو فوائد وہ بیان کرتے ہیں وہ فائدے کھڑے ہو کر نہ پینے کی بجائے ایک ہی سانس میں نہ پینے سے مل سکتے ہیں ، بہر حال یہ دوسرا موضوع ہے پھر کِسی وقت اِنشا اللہ ، مسلمان اگر کوئی کام کِسی دُنیاوی فائدے کے لیے کرتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ فائدہ اُسے دے دے لیکن دِینی طور پر وہ کام اُس کے لیے کوئی فائدہ نہیں رکھتا ، اگر کوئی مسلمان کِسی طبی فائدے کے لیے بیٹھ کر پیے تو

نہ تو وہ حرام کام سے بچا اور نہ ہی اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابع فرمانی کا ثواب مِلا کیونکہ ( عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے ) صحیح البخاری کی پہلی روایت، اور دُنیاوی فائدوں کی ترغیب آج کے مسلمانوں کے اِیمان کو مزید کمزور کرنے کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے، آخر میں اِس مضمون کے موضوع سے متعلق یہ اہم وضاحت ضروری ہے کہ (١) تمام احادیث میں کھڑے ہو کر (کُچھ بھی )پینے کی مُمانعت ہے ، اور کہیں پانی یا زمزم کا کوئی فرق ذِکر نہیں کیا گیا (٢) اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہو کر زمزم پینے میں کِسی کے لیے زمزم پینے کی کوئی اجازت ملتی ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کھڑے ہو کر عام پانی بھی نوش فرمایا ہے اور دودھ بھی ، تو تین چیزوں میں سے صِرف زمزم کو کیوں چُنا جاتا ہے ؟ جبکہ مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کِسی بھی مُسلمان کے لیے کھڑے ہو کر کُچھ بھی پینے کی مُمانعت ہے اور کھڑے ہو کر کھانے کے بارے میں انس رضی اللہ عنہُ کا فتویٰ آغاز میں نقل کی گئی چوتھی حدیث میں موجود ہے۔واللہ اعلم بالصواب

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سیما قریشی کے وہ خطرناک کارنامے جو کوئی بھی سرانجام دینے سے پہلے کئی بار سوچے

نیوٹرل رہو تو بھی تم ناراض ، نیوٹرل نہ رہو تو بھی تم خفا ۔۔۔۔۔واہ نیازی تیری کیا بات ہے