کینسر کا پتا چلنے سے پہلے ہی مجھے سانس نہیں آرہی تھی ۔۔ مشہور اداکار سنجے دت کو بیماری کے دروان لوگ کیا بول کر پریشان کرتے تھے؟
اداکاروں کی زندگی بھی کوئی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ اگر ہم یہاں مشہور و معروف بھارتی اداکار سنجے دت کی بات کریں تو کون نہیں جانتا انہیں۔ کئی لوگ تو انہیں پیار و محبت کی وجہ سے بابا تو کوئی انہیں سنجو کہتے ہیں۔
لیکن انہوں نے زندگی میں بڑی بڑی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔ جب انہیں کینسر ہوا تو یہ گھنٹوں روتے رہے ۔ بھارتی ویب شو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک عام دن تھا لیکن میں محسوس کر رہا تھا کہ جیسے میری طبعیت خراب ہو رہی ہو، میرا سانس اکھڑ رہا ہو۔
اسی حالت میں نہایا لیکن پھر بھی سانس نہیں لے پا رہا تھا اب میری سمجھ سے باہر تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ مزید یہ کہ میں نے اپنے ڈاکٹر کو فون کیا، جس کے بعد میرا ایکسرے کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پھیپھڑے آدھے سے زیادہ پانی سے بھرے ہوئے ہیں ۔
مشہور اداکار نے دوران انٹرویو یہ بھی بتایا کہ سب کو لگ رہا تھا کہ شاید یہ ٹیوب کلوسس ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو کینسر ہے اور اس وقت میرے گھر والوں کیلئے سب سے مشکل بات یہ تھی کہ مجھے اس بیمارے کے بارے میں کیسے بتایا جائے۔
آگے بڑھتے ہیں اور آپکو بتاتے ہیں کہ سنجے دت کا کہنا تھا کہ وہ اپنے لیے ایسی بات سن کر کسی کا بھی منہ تور سکتے ہیں لیکن میری بہن آئی اور اس نے مجھے یہ خبر دی تو میں نے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے۔
اس مرحلے کے بعد ہریتک روشن کے والد راکیش رون نے ڈاکٹرز کا بتایا جن سے علاج کروایا اور اب میں بالکل ٹھیک ہوں صحت مند زندگی گزار رہا ہوں البتہ اپنی فیملی اور بچوں کا سوچ سوچ کر گھنٹوں رویا ضرور تھا۔واضح رہے کہ یہ واقعہ سال 2020 کا ہے۔
منشیات کی عادت:
میری منشیات استعامال کرنے کی عادت تب شروع ہوئی جب میں نے سوچا کہ اس کی وجہ سے مجھے لڑکیوں میں مقبولیت حاصل ہوگی، مجھے لگا میں ان کے سامنے اپنے نمبر بنالوں گا۔
اداکار نے کہا کہ مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر میں منشیات کا استعمال کررہا ہوں تو لڑکیوں سے بات کرنے اور ان سے دوستی کرنے میں زیادہ پر اعتماد ہوں، میں سمجھتا تھا کہ یہ مجھے دلکش بناتا ہے۔
واضح رہے کہ جب میں مرکز بحالی سے واپس لوٹا تو لوگ گلیوں میں مجھے چرسی کہہ کر مخاطب کرتے جو کہ میرے لیے تکلیف دہ ہوتا تھا، اس وقت دل کرتا تھا کہ کہیں چھپ جاؤں اور روتا رہوں۔
مسلمانوں کا سنجے دت کے ساتھ اچھا رویہ:
مسلمان اس جہاں میں کہیں بھی ہوں ایک بہترین قوم ہیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ایک بہت مشہور ہندو کے وہ الفاظ ہیں جنہیں سن کر سینہ فخر چوڑا ہو جاتا ہے۔
ہم یہاں بات کر رہے ہیں بھارتی فلم انڈسٹری کے بابا کی جی ہاں آپ صحیح سمجھے ہیں ہم بات کر رہے ہیں سنجے دت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ جیل میں گزارا ہوا وقت میری زندگی کا سب سے مشکل وقت تھا۔
مگر وہاں بھی لوگوں نے میری ہر طرح سے مدد کی خصوصاََ مسلمانوں نے کیونکہ جب صبح 4 بجے جیل میں گرم گرم چائے ملتی ہے تو وہ مجھ سمیت تمام ہندو دوستوں کو جگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھائی گرم چائے ملی ہے پیے گا۔ یہ بات کرتے ہوئے وہ تھوڑا جذباتی ضرور ہو گئے تھے۔
اور ہو بھی کیوں نہ جو چائے اور کھانا مسلمان کو روزوں میں سحری کیلئے دی جاتی تھی وہ اپنے ہندو دوستوں کو بھی پلاتے تھے۔ یہ انکا بڑا پن تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہاں ہم سب ایک ہی ہیں اور یہ بھائی ہیں انکی بھی خدمت کرنی چاہیے۔
یہی نہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیل میں اپنے آپ کو کنٹرول کرنا سیکھا اور بہت سے کام کیے جیسے گارڈننگ اور اخبارات کے چھوٹی چھوٹی تھیلیاں بنانا۔ میں اور میرا دوست دن میں 50 سے 60 اس طرح کی تھیلیاں بناتے تھے جس کے بدلے میں ہمیں 50 پیسے ملتے تھے اور یوں وہ کچھ دنوں بعد جب 500 بن جاتے تو یہ رقم میرے لیے دنیا کی سب سے بڑی رقم ہوتی۔
مزید یہ کہ یہ سب باتیں انہوں نے ایک ہندوستانی میڈیا پر نشر ایک شو میں کہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ میں تو اپنے بچوں سے بھی نہیں مل پاتا تھا یہ بات مجھے افسردہ کر دتی تھی پھر مجھے کسی نے سمجھایا یہ جیل یوں نہیں کٹی گی حوصلہ کرو۔
اس کے علاوہ جو کام میں یہاں دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر نہیں کر سکتا تھا وہ میں نے جیل میں کیے،مثلاََ اپنے مذہب کی تمام کتابیں پڑھ لیں تو مجھے بہت اچھا لگا۔