in

نواز شریف نے یہ پیغام کس معزز جج کو بھجوایا تھا ؟

نواز شریف نے یہ پیغام کس معزز جج کو بھجوایا تھا ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اور لوگ تھے۔ وہ احساس،درد اور شعور رکھتے تھے۔ ہم غلام‘ ذہنی غلام۔ آزادی مل گئی باطن میں وہی اسیری۔ یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر سچ ہے اب ان کو کیا خبر دل بھی کسی کا نام تھا،غم بھی کسی کی ذات تھی عدلیہ کا حال پہلے ہی پتلا تھا۔

دنیا بھر میں 120ویں نمبر پر۔ اب کیا اسے دفن کرنا مقصود ہے؟ ایک آدھ نہیں، تقریباً سبھی اس کے درپے ہیں۔ طرفہ تماشا ہے کہ شریف خاندان بھی عدل کا علمبردار ہوگیا ہے۔ مجسٹریٹ کی سطح سے عدالت عظمیٰ تک ایک ہزار قاضیوں کی کمی ہے۔ 2007ء میں جسٹس افتخار چوہدری کی برطرفی پہ عوامی تحریک برپا ہوئی۔ وکلاء اس کا ہراول دستہ تھے۔ ایسی جرأت و جسارت کا انہوں نے مظاہرہ کیا کہ پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایسی تائید انہیں حاصل ہوئی کہ تحریک خلافت اور تحریک پاکستان کے سوا شاید ہی کوئی دوسری نظیر ہو۔

گیلپ نے سروے کیا تو انکشاف ہوا کہ 83فیصد پاکستانی، افتخار چوہدری کی شخصیت سے آشنا ہیں‘ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کو بحال کرنے کے حامی ہیں۔ بس ایک مولانا فضل الرحمن‘ بس ایک اسفندیارولی‘ مگر ان کے آباء تو تحریک پاکستان کے بھی حریف تھے۔ ابوالکلام نے باچا خاں کو پیغام بھیجا کہ سیاست چھوڑو‘ خدمت خلق کرو‘ پاکستان کمزور ہوا تو ہندوستان کے مسلمان بھی مجروح ہوں گے۔ خان صاحب نے منع کر دیا۔ کابل اور دلی سے تعلق برقرار رکھا۔ 1946

ء کے انتخابات میں، قائد اعظمؒ کی مسلم لیگ کو 75.6فیصد ووٹ ملے تھے، جو اخلاقی عظمت کا لہکتا ہوا استعارہ تھے۔ ایسا شاندار اتحاد افتخار چوہدری کے لیے برپا نہ ہوا تھا بلکہ اس عدل کی آرزو میں، ہمیشہ سے معاشرہ جس کے لیے ترس رہا تھا۔ اس کے بعد مگر کیا ہوا؟ وکیل گردی اور ایسی وکیل گردی کہ خدا کی پناہ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جو کارنامے انجام دیئے۔ ان کے فرزند ارجمند نے جو کرشمے دکھائی،ایک پوری کتاب بھی شاید اس کا احاطہ نہ کر سکے۔ تحریک کے ہنگام، بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا:عدالت ہو گی ماں کے جیسی، ریاست ہو گی ماں کے جیسی۔ جج بحال ہوچکے تو معلوم ہوا کہ واسطہ اب پتھر دلوں سے ہے۔ ججوں کے تقرر کا اختیار انہوں نے عدلیہ کو سونپ دیا بلکہ خود اپنے آپ کو۔ اعتزاز احسن شرمندہ تھے اور ہر صاحب ادراک۔ طریقِ کوہکن میں بھی وہی پرویزی حیلے۔ انصاف اب بھی نایاب تھا بلکہ پہلے سے زیادہ ادق۔ عام آدمی کے مقدر میں وہی ٹھوکریں، بلکہ پہلے سے زیادہ۔

پاکستانی عدلیہ کو کس نے پامال کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مل جل کر سبھی نے۔ حکمرانوں نے، خود جج صاحبان نے، وکلاء انجمنوں نے، پوری اشرافیہ نے۔ صدیوں سے یہی اس کا شعار ہے ۔ مایوسی میں گھری قوم خود کو جب حکمرانوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دے تو یہی ہوتا ہے۔ شریف خاندان کی نون لیگ اب عدالتی عظمت کا علم اٹھائے کھڑی ہے۔ انگریزی محاورے کے مطابق منکر بائبل کی تلاوت فرماتا ہے۔ خدا کی پناہ! کیا یہ وہی نواز شریف نہیں، شہباز شریف نے

جن کے ایما پر جسٹس عبدالقیوم سے فرمائش کی تھی: بے نظیر بھٹو کو سات سال کے لیے قید کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دو۔ جج صاحب نے کہا: قانون میں گنجائش نہیں۔ شہباز شریف کا استدلال یہ تھا:یہ بات بھائی جان نے کہی ہے۔ ’’فرتے گل ای مک گئی‘‘۔ تو بات طے پا گئی۔ شریف خاندان، اس پہ کبھی شرمندہ ہوا؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں، سپریم کورٹ پر جنہوں نے یلغار کی تھی اور اس طرح کہ جیسے غنیم پہ اٹیک کیا جاتا ہے۔ جج حضرات کو فرار ہونا پڑا۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو کون سا ایسا وظیفہ بتایا جو کہ آپ کی زندگی بدل کر رکھ سکتا ہے۔

اے سی کا بل زیادہ آتا ہے ۔۔۔!!! وہ کام جس کے ذریعے آپ اپنا بجلی کا بل آدھا کرسکتےہیں