بھائی نے شوہر کے انتقال کے بعد بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا ۔۔ پاکستان کی پہلی لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر نے چھوٹے بھائی کو ماں کی طرح کیوں پالا تھا؟
پاکستان آرمی میں جوان تو بہت ہیں جو کہ محنت و مشقت اور اپنے جذبے کے بل بوتے پر آج ملک کے دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں، لیکن ان سب میں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
آج آپ کو میجر جنرل نگار کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بتائیں گے۔ میجر جنرل نگار جوہر کا تعلق خیبرپختونخوا کے علاقے صوابی سے ہے۔ پٹھان گھرانے میں پیدا ہونے والی نگار جوہر شروع ہی سے ایک باصلاحیت اور وطن سے محبت کا جذبہ رکھنے والی خاتون ہیں۔
میجر جنرل نگار کے والد کرنل قادر بھی پاکستان آرمی میں آفیسر تھے اور آئی ایس آئی میں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے تھے۔ میجر جنرل نگار بتاتی ہیں کہ میں نے جب والدین سے پاکستان آرمی جوائن کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو والدین میری اس خواہش پر خوش نہیں تھے۔ چونکہ میرا تعلق ایک پٹھان گھرانے سے ہے تو مجھے اس حوالے سے والدین کو منانے میں وقت لگا تھا۔ نگار جوہر نے پریزینٹیشن کنونٹ گرلز ہائی اسکول سے تعلیم مکمل کی تھی۔
1981 میں بطور کیڈٹ پاکستان آرمی جوائن کرنے والی میجر نگار جوہر نے بخوبی اپنی صلاحیتوں کے عوض اپنی شناخت بنالی تھی، 5 سال کی کیڈٹ شپ مکمل کرنے کے بعد آرمی میڈیکل کالج سے گریجوئیٹ ہو کر پاکستان آرمی میں بطور کمیشن ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ واضح رہے 2015 میں لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر نے یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنس سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹر کی ڈگری مکمل کی تھی۔
اور پھر بے شمار کامیابوں کو سمیٹتے ہوئے میجر جنرل نگار جوہر میجر کے عہدے پر بھی فائز رہیں، جبکہ کرنل کے عہدے کی ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھائیں۔ اس علاوہ لیفٹنینٹ کرنل برگیڈئیر، میجر جنرل اور اب لیفٹنینٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔
لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر تھری اسٹار جنرل ہیں جبکہ پاکستان آرمی کی وہ پہلی خاتون ہیں جو کہ لیفٹنینٹ جنرل کے عہدے تک پہنچی ہیں اور تیسری خاتون ہیں جو کہ میجر جنرل کے عہدے تک پہنچی ہیں۔ اس کے علاوہ نگار جوہر پاک امارات ملٹری اسپتال کی کمانڈنٹ ان چارج بھی ہیں۔
لیفٹنینٹ جنرل نگار کے والدین اور بہن کا کار حادثے میں انتقال ہو گیا تھا، زندگی کے ان اتار چڑھاؤ نے بھی لیفٹنینٹ جنرل کی ہمت کو ٹوٹنے نہیں دیا تھا۔ لیفٹنینٹ جنرل نگار کہتی ہیں کہ جب میں جوان تھی اسی دوران میرے والدین ایک کار حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ میرے والدین کی نصیحت اور ان کی ہر ایک بات نے جو وہ مجھے بتایا کرتے تھے، سکھایا کرتے تھے نے مجھے تبدیل کر دیا تھا۔ میرے والدین نے مجھے مثبت سوچ رکھنے اور اس مثبت سوچ سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہو، مجھے میرے والدین نے سکھایا تھا۔
اپنی فیلڈ میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر کا کہنا تھا کہ صںفی امتیازی سلوک ہر جگہ ہوتا ہے، لیکن اگر ہم اپنی بہن بیٹی کو اس بات سے آگاہ کریں کہ آپ کہاں امتیازی سلوک کا شکار ہو رہی ہیں۔
آفس کی لائف اورر نجی زندگی دونوں کو لے کر چلنا ویسے تو اکثر لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے مگر لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر کہتی ہیں کہ آفس اور نجی زندگی کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہیں ہے مگر آپ اپنے جیون ساتھی کو اس بارے میں سمجھا سکتے ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ میرا جیون ساتھی میرے آفس کی لائف سے متعلق احساس کرتے ہیں اور مجھے سمجھتے ہیں۔
لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر کے شوہر جوہر علی خان ان کے لیے موٹیویشن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر نے مجھے پروفیشنل لائف میں آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ دیا تھا۔ نگار جوہر کا کہنا ہے کہ میری زندگی کا بہترین دوست میرا چھوٹا بھائی ہے جو کہ ہر لمحے ہر قدم پر مجھے نہ صرف سپورٹ کرتا ہے بلکہ اپنے پیاروں کی حفاظت کیسے کرتے ہیں؟ یہ میں نے اپنے بھائی شاہد ہی سے سیکھا ہے۔ لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر کے بھائی شاہد اس وقت پاکستان ائیر فورس میں بطور ائیر کموڈور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر اپنے چھوٹے بھائی کو ہمیشہ سپورٹ کرتی دکھائی دی ہیں، والدین کے انتقال کے بعد لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ بھائی کو بھی ہر موقع پر سپورٹ کیا اور مدد فراہم کی۔
نگار جوہر خود آرمی میں میڈیکل کی فیلڈ میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں جبکہ انہوں نے بھائی کو بھی ماں بن کر سپورٹ کیا ہے۔
خاتون افسر اپنے بھائی سے متعلق کہتی ہیں کہ میں نے اپنے والدین، بہن اور شوہر کی وفات کے بعد اب بھی میں مثبت، مضبوط اور حوصلے سے بھرپور ہوں کیونکہ میرے پاس میرا بھائی موجود ہے۔
واضح رہے لیفٹنینٹ جنرل نگار جوہر کے شوہر کا 2019 میں کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ لیکن بھائی ہر مشکل گھڑی میں بڑی بہن کو سپورٹ کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے بہن نے بھائی کا کیا تھا۔
قوم کی اس بہادر بیٹی کو ان کی صلاحیتوں کی بنا پر فاطمہ جناح میڈل اور تمغہ امتیاز ملٹری ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔