جنت میں چھ چیزیں نہ ہوں گی
پہلی چیز: جنت میں موت نہ ہوگی۔ چنانچہ یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جنت میں موت نہیں ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : النومُ أخو الموتِ ، ولا يموتُ أهلُ الجنَّةِ (صحیح الجامع: 6808) ترجمہ:
پہلی چیز: جنت میں موت نہ ہوگی۔ چنانچہ یہ بات صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جنت میں موت نہیں ہوگی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
النومُ أخو الموتِ ، ولا يموتُ أهلُ الجنَّةِ (صحیح الجامع: 6808)
ترجمہ: نیند موت کا بھائی ہے اور اہل جنت کو موت نہیں آئے گی ۔
یہ بات صحیحین کی روایت سے بھی ثابت ہے ، بخاری شریف کی حدیث دیکھیں :
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَارَ أَهْلُ الْجَنَّةِ إِلَى الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ إِلَى النَّارِ جِيءَ بِالْمَوْتِ حَتَّى يُجْعَلَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُذْبَحُ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ لَا مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ لَا مَوْتَ فَيَزْدَادُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلَى فَرَحِهِمْ وَيَزْدَادُ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلَى حُزْنِهِمْ( صحيح البخاري: 6548)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا اور اسے جنت اور دوزخ کے درمیان رکھ کر ذبح کردیا جائے گا۔ پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ اے جنت والو! تمہیں اب موت نہیں آئے گی اور اے دوزخ والو! تمہیں بھی اب موت نہیں آئے گی۔ اس بات سے جنتی اور زیادہ خوش ہوجائیں گے اور جہنمی اور زیادہ غمگین ہو جائیں گے۔
دوسری چیز: جنت میں نیند نہ ہوگی ۔ یہ بات بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے ، الجامع کی مذکورہ روایت بھی اس کی دلیل ہے کیونکہ نیند کو موت کا بھائی کہا ہے تو دونوں کا یکساں حکم ہوگا۔ دوسری احادیث میں واضح الفاظ بھی آئے ہیں ۔
عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :النَّوْمُ أَخُو الْمَوْتِ ، وَلا يَنَامُ أَهْلُ الْجَنَّةِ (المعجم الأوسط للطبراني(
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نیند موت کا بھائی ہے اور اہل جنت نہیں سوئیں گے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے مجموعی طرق کے اعتبار سے صحیح کہا ہے ۔ (السلسلہ الصحیحۃ : 1087)
مشکوۃ میں بھی یہ روایت آئی ہے ، حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے :
سأل رجلٌ رسولَ اللهِ – صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ – : أينامُ أهلُ الجنةَ ؟ ! قال : النومُ أخو الموتِ، ولا يموتُ أهلُ الجنةِ .(مشكوة)
ترجمہ: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ جنت والے سوئیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: نیند موت کا بھائی ہے اور اہل جنت نہیں سوئیں گے ۔
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی نے ضعیف کہا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس کے متعدد طرق ہیں بعض طریق صحیح ہے ۔ (تخريج مشكاة المصابيح:5579)
تیسری چیز: جنت میں حسد نہ ہوگا۔ یہ بات بھی قرآن وحدیث کے نصوص سے ثابت ہے کہ اہل جنت کے دلوں میں دنیاوی بغض وحسد نہ ہوگااللہ تعالی اسے ان کے سینوں سے نکال پھینکے گا۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَاناً عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ (الحجر: 47 )
ترجمہ: ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے ، وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے ۔
چوتھی چیز : جنت میں نجاست نہیں ہوگی ۔ یہ بات بھی بالکل صحیح ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر ایک باب باندھا ہے ” بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ”(باب : جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہوچکی ہے( اس باب کے تحت یہ حدیث درج کرتے ہیں جو جنت میں پیشاب وپاخانہ اور کسی قسم کی نجاست نہ ہونے کی دلیل ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ، لاَ يَبْصُقُونَ فِيهَا، وَلاَ يَمْتَخِطُونَ، وَلاَ يَتَغَوَّطُونَ، آنِيَتُهُمْ فِيهَا الذَّهَبُ، أَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ، وَمَجَامِرُهُمُ الأَلُوَّةُ، وَرَشْحُهُمُ المِسْكُ، وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الحُسْنِ، لاَ اخْتِلاَفَ بَيْنَهُمْ وَلاَ تَبَاغُضَ، قُلُوبُهُمْ قَلْبٌ وَاحِدٌ، يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا(صحيح البخاري:3245)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جنت میں داخل ہونے والے سب سے پہلے گروہ کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے چودہویں کا چاند روشن ہوتا ہے ۔ نہ اس میں تھوکیں گے نہ ان کی ناک سے کوئی آلائش آئے گی اور نہ پیشاب ، پائخانہ کریں گے ۔ ان کے برتن سونے کے ہوں گے ۔ کنگھے سونے چاندی کے ہوں گے ۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود کا ہوگا ۔ پسینہ مشک جیسا خوشبودار ہوگا اور ہر شخص کی دو بیویاں ہوں گی ۔
جن کا حسن ایسا ہوگا کہ پنڈلیوں کا گودا گوشت کے اوپر سے دکھائے دے گی ۔ نہ جنتیوں میں آپس میں کوئی اختلاف ہوگا اور نہ بغض و عناد ، ان کے دل ایک ہوں گے اور وہ صبح و شام اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہا کریں گے ۔
پانچویں چیز : جنت میں بڑھاپا نہیں ہوگاکیونکہ سبھی کو تیس یا تینتیس سال کا کڑیل جوان کرکے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
يدخلُ أهْلُ الجنَّةِ الجنَّةَ جُردًا مُردًا مُكَحَّلينَ أبناءَ ثلاثينَ ، أو ثَلاثٍ وثلاثينَ سنةً(صحيح الترمذي: 2545)
ترجمہ: جنتی جنت میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ ان کے جسم پر بال نہیں ہوں گے، وہ امرد ہوں گے، سرمگیں آنکھوں والے ہوں گے اور تیس یا تینتیس سال کے ہوں گے۔
اسی طرح یہ روایت بھی دیکھیں :
أن امرأة عجوزا جاءته تقول له: يا رسول الله ادع الله لي أن يدخلني الجنة فقال لها: يا أم فلان إن الجنة لا يدخلها عجوز وانزعجت المرأة وبكت ظنا منها أنها لن تدخل الجنة فلما رأى ذلك منها بين لها غرضه أن العجوز لن تدخل الجنة عجوزا بل ينشئها الله خلقا آخر فتدخلها شابة بكرا وتلا عليها قول الله تعالى: { إن أنشأناهن إنشاء فجعلناهن أبكارا عربا أترابا }. )السلسلة الصحيحة:2987(
ترجمہ: :ایک بڑھیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمائیں کہ وہ مجھے جنت میں داخل کردے۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں کی ماں جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی
(راوی) بیان کرتے ہیں کہ (یہ جواب سن کربڑھیا) مونہہ پھیرکرجاتے ہوئے رونے لگی یہ گمان کرکے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتی ۔ جب آنے انہیں دیکھا تو بیان کرنے کا مقصد واضح کیا کہ کوئی عورت بڑھیا ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اسے دوسری تخلیق کریں گے اور پھر جوان وکنواری ہوکر اس میں داخل ہوگی ۔ اور آپ نے اللہ کے اس قول کی تلاوت کی :” إن أنشأناهن إنشاء فجعلناهن أبكارا عربا أترابا ” ہم نے ان کی (بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے اور ہم نے انہیں کنواریاں بنادیا ہے ، محبت والیاں اور ہم عمر ہیں ۔
چھٹی چیز: جنت میں داڑھی نہیں ہوگی یہ بات بھی صحیح ہے تاکہ جنتی کے حسن وجمال میں مزید خوبصورتی پیدا ہوجائے ۔ دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور اس کا حکم وجوب کا ہے جو دنیا میں رسول اللہ ﷺ کے اس واجبی حکم پر عمل کرے گا اور صحیح ایمان والا ہوگا تو اللہ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوگا اور وہاں اسے جوان بنا دیا جائے گا اس طرح کہ جسم اورچہرے سے بال ہٹا دیا جائے گا۔ اس کی دلیل بڑپاھا کے تحت گزری ترمذی کی روایت ہے جس میں خاص لفظ “مردا” آیا ہے جو بلاریش کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
بکھرے موتی کی تحقیق ختم ہوئی یعنی اس میں درج ساری باتیں صحیح ہیں ، اس تحقیق کو پیش کرنے میرا مقصد لوگوں کو جنت کا شوق دلانا ہے ۔اللہ تعالی ہمیں اپنی رحمت وتوفیق سے جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔ آمین