تحریک عدم اعتماد! چودھریوں کا بھرا میلہ لٹ گیا
تحریک عدم اعتماد! چودھریوں کا بھرا میلہ لٹ گیا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) کیا سماں تھا۔ چودھریوں کے ڈیرے پر ملاقاتیوں کی لین ڈوری بندھی تھی۔ مولانا رخصت ہوتے تو آصف زرداری آتے۔ زرداری جاتے تو مولانا پھر آ جاتے۔ انتہا تو یہ ہوئی کہ شہباز شریف کو اپنی بڑی سی انا ایک طرف رکھ کر خود چل کر چودھری کے ڈیرے پر سلام کرنے آنا پڑا۔
ویسے تو کپتان کبھی نہیں گھبراتا، مگر یہ ملاقاتیں اور راز و نیاز دیکھ کر اسے بھی کچھ پریشانی ہوئی۔ چودھری کے ڈیرے پر اس نے بھی نذر نیاز گزاری، وفا نبھانے کے دو طرفہ قول قرار ہوئے، حتی کہ ایک تقریب میں چھوٹے چودھری کی بھی انہوں نے خوب بلائیں لیں۔
کہاں وہ کپتان جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کی تعریف کو کذب و ریا سمجھتا ہے اور کہاں یہ وقت کہ چھوٹے چودھری کو بھی سر آنکھوں پر بٹھانا پڑا۔بہرحال چودھریوں کا ستارہ عروج پر تھا۔ ہر ملاقاتی دوسرے سے بڑی پیش کش لے کر آتا۔ چودھری بھی اس حسینہ کی طرف تھے جو نہ اقرار کرتی تھی نہ انکار کرتی تھی مگر اس سے ہر ملنے والے کو یہ یقین ہو چلا تھا
کہ وہ اسی سے پیار کرتی تھی۔کوئی چودھریوں اور ان کے کامداروں کو سونے میں تولنے کا وعدہ کرتا تھا، کوئی کہتا تھا کہ آپ کی قومی اسمبلی میں پانچ اور پنجاب میں دس سیٹیں ہیں تو کیا ہوا، آپ کو ویسے ہی پنجاب کا صوبیدار بنا دیتے ہیں جیسے رومی شہنشاہ کالیگولا نے اپنے گھوڑے انکیطاطس یعنی صبا رفتار کو بنانے کا سوچا تھا۔
مدعا اس بادشاہ کا یہ تھا کہ جیسے روم کے سب سے اونچے سیاستدان ہیں، ان سے بہتر تو میرا گھوڑا ہے۔
غالباً چودھریوں کو بھی یہ پیش کش اسی تناظر میں کی گئی تھی۔مگر سننے میں آیا کہ باقی سب تو مان گئے ہیں بس شریف اڑے کھڑے ہیں کہ چودھریوں کو یہ صوبہ نہیں دینا۔ اس پر چودھری بھی کچھ خفا ہوئے۔ کپتان سے ملے تو اسے اپنا دل اور ووٹ ہدیہ کرنے کی طرف مائل ہونے کا کہنے لگے۔
جب ہر طرف یہ تاثر پھیل گیا کہ چودھری اب بادشاہ گر ہیں، جس کے سر پر وہ اپنا ہاتھ رکھ دیں وہی بادشاہ بنے گا، تو انہیں نظر لگ گئی۔پنجاب سے ہوائیں چلنے لگیں کہ تحریک انصاف کے مقہور و مغضوب گروہوں نے جمعیت اکٹھی کی ہے اور وہ بغاوت پر آمادہ ہیں۔ سرخیل ان کا ایک جہانگیر شخص بتایا جاتا تھا جو نہ صرف گڑ جیسی بات کرتا تھا اور گڑ اور کھانڈ کی تجارت میں اس نے نام کما رکھا تھا، بلکہ اسی سلسلے میں اس پر مقدمے بھی بن گئے تھے۔ وہ اپنے جہاز کے لیے بھی مشہور ہوا تھا۔ جیسے شاہ سلمان کا وزیر ایک تخت پر ملکہ سبا کو اڑا کر دربار میں لے آیا تھا، ویسے ہی اس جہانگیر ترین کا جہاز بڑے بڑوں کو اڑا کر شاہ عمران کے دربار میں پیش کرنے کی شہرت رکھتا تھا اور حکومتیں بنانے میں آسمانی مدد فراہم کیا کرتا تھا۔جہاں چودھریوں نے کپتان کے دل کو قرار بخشا تھا۔
وہیں اس خبر نے کپتان کو کچھ پریشان کیا۔ کپتان انا پرست تو ہرگز نہیں ہے، جیسے ہی مصیبت سر پر پڑے تو اپنے بدترین مخالفین کو، حتیٰ کہ اپنے ساتھیوں تک کو بھی عزت دیتا ہے۔ اس نے ترنت ترین سے وہ ناتہ دوبارہ جوڑا جو کئی برس پہلے ٹوٹا تھا۔ لیکن ترین نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ستم بالائے ستم کہ علیم خان نامی ایک جتھے دار نے بھی کپتان کو کمزور پا کر جہانگیر ترین کے ساتھ ملنے کا اعلان کر دیا۔ یہ جتھے دار بھی جہانگیر ترین کی طرح وہ بدقسمت ساتھی تھا جس نے کپتان کو شاہ بنانے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے اور اسی کی مانند اے ٹی ایم کے لقب سے سرفراز ہوا۔ اور جب قربانی دینے کے لیے نظر بٹو کی تلاش ہوئی تو ترین ہی کی مانند قرعہ فال اسی کے نام نکلا۔
اس فال کے نتیجے میں وہ نیب کی چکی میں ایک طویل مدت تک گھن کی مانند پسا کیا۔اس کے ساتھ ہی چودھریوں کا سورج جو نصف النہار پر چمک رہا تھا گرہن کا نشانہ بنا۔ کہاں وہ وقت کہ سب چھوڑے بڑے ستارے ان کے گھر میں اکٹھے ہو رہے تھے اور کہاں یہ وقت آیا کہ بڑے چودھری صاحب اب خود گردش کرتے ہوئے اس شدید بیماری کی کیفیت میں لاہور سے اسلام آباد جا کر مولانا کو اپنی وفا کا یقین دلانے میں مصروف ہوئے۔ سنا ہے کہ ہدیے میں کوئی آفر وغیرہ بھی لے کر گئے ہیں۔ بشکریہ سینئر صحافی عدنان کاکڑ۔