in

وہ دعا جس کو ایک بار پڑھنے سے زندگی کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں

وہ دعا جس کو ایک بار پڑھنے سے زندگی کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں

فہد نیوز! یہ استغفار کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور اس میں اِغفر آیا ہے امر بعض اوقات دعا کے معنوں میں بھی آتا ہے فعل امر بمعنی دعا اللھم اغفر لی خطیئتی وجھلی واسرافی فی امری وماانت اعلم بہ منی اللھم اغفر لی ھزلی وجدی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی ،ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے اللہ بخش دے مجھ کو یا میرے لئے خطا میری اور جہالت میری نادانی میری اور زیادتی میری اور میرے کام اور جو تو زیادہ جانتا ہے اس کو مجھ سے بڑھ کر

،ا ے بخش دے مجھ کو میرے لئے ہنسی سے کئے ہوئے میرے گناہ ہزل ہوتا ہے ہنسی مذاق اور کوشش کئے ہوئے یا قصداً کئے ہوئے جان بوجھ کر کئے ہوئے میرے گناہ اور خطا میری اور عمداًکئے ہوئے میرے گناہ جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہ اور یہ سب کے سب میرے پاس ہیں یعنی میرے اندر ہی
مجھ میں موجود ہیں یہ ساری باتیں یہ اعتراف ہے اپ
سارے گناہوں کا خطاؤں کا لاعلمیوں اوربے خبری کا وہ گناہ جو ہم بے خبری میں کرتے رہتے ہیں جہل میں پتہ ہی نہیں کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور ہم کچھ اور ہی کرے جارہے ہیں اور حد سے بڑھ کر غلط کام کرنایا کسی بھی معاملے میں حد سے بڑھنا اور اللہ تعالیٰ جو بھی تو جانتا ہے میرے بارے مین کہ میں کہاں کہاں غلط ہوں

خراب ہوں اور بعض گناہ ہم ہنسی مذاق میں کرتے ہیں بعض اوقات جان بوجھ کر کرتے ہیں بعض اوقات خطا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ارادتا وہ کام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو ان سب کو معاف فرمادے ۔

اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہےجبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےگویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔ ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔ ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہےیہ استغفار کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور اس میں اِغفر آیا ہے امر بعض اوقات دعا کے معنوں میں بھی آتا ہے فعل امر بمعنی دعا اللھم اغفر لی خطیئتی وجھلی واسرافی فی امری وماانت اعلم بہ منی اللھم اغفر لی ھزلی وجدی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی ،ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے اللہ بخش دے مجھ کو یا میرے لئے خطا میری اور جہالت میری نادانی میری اور زیادتی میری اور میرے کام اور جو تو زیادہ جانتا ہے اس کو مجھ سے بڑھ کر ،ا ے بخش دے مجھ کو میرے لئے ہنسی سے کئے ہوئے میرے گناہ ہزل ہوتا ہے ہنسی مذاق اور کوشش کئے ہوئے یا قصداً کئے ہوئے جان بوجھ کر کئے ہوئے میرے گناہ اور خطا میری اور عمداًکئے ہوئے میرے گناہ جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہ اور یہ سب کے سب میرے پاس ہیں یعنی میرے اندر ہیں مجھ میں موجود ہیں

یہ ساری باتیں یہ اعتراف ہے اپنے سارے گناہوں کا خطاؤں کا لاعلمیوں اوربے خبری کا وہ گناہ جو ہم بے خبری میں کرتے رہتے ہیں جہل میں پتہ ہی نہیں کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور ہم کچھ اور ہی کرے جارہے ہیں اور حد سے بڑھ کر غلط کام کرنایا کسی بھی معاملے میں حد سے بڑھنا اور اللہ تعالیٰ جو بھی تو جانتا ہے میرے بارے مین کہ میں کہاں کہاں غلط ہوں خراب ہوں اور بعض گناہ ہم ہنسی مذاق میں کرتے ہیں بعض اوقات جان بوجھ کر کرتے ہیں بعض اوقات خطا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ارادتا وہ کام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو ان سب کو معاف فرمادے ۔ اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے

اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہےجبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےگویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا،

گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔ ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔ ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہےیہ استغفار کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور اس میں اِغفر آیا ہے امر بعض اوقات دعا کے معنوں میں بھی آتا ہے فعل امر بمعنی دعا اللھم اغفر لی خطیئتی وجھلی واسرافی فی امری وماانت اعلم بہ منی اللھم اغفر لی ھزلی وجدی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی ،ترجمہ اس کا یہ ہے

کہ اے اللہ بخش دے مجھ کو یا میرے لئے خطا میری اور جہالت میری نادانی میری اور زیادتی میری اور میرے کام اور جو تو زیادہ جانتا ہے اس کو مجھ سے بڑھ کر ،ا ے بخش دے مجھ کو میرے لئے ہنسی سے کئے ہوئے میرے گناہ ہزل ہوتا ہے ہنسی مذاق اور کوشش کئے ہوئے یا قصداً کئے ہوئے جان بوجھ کر کئے ہوئے میرے گناہ اور خطا میری اور عمداًکئے ہوئے میرے گناہ جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہ اور یہ سب کے سب میرے پاس ہیں یعنی میرے اندر ہیں مجھ میں موجود ہیں یہ ساری باتیں یہ اعتراف ہے اپنے سارے گناہوں کا خطاؤں کا لاعلمیوں اوربے خبری کا وہ گناہ جو ہم بے خبری میں کرتے رہتے ہیں جہل میں پتہ ہی نہیں کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور ہم کچھ اور ہی کرے جارہے ہیں اور حد سے بڑھ کر غلط کام کرنایا کسی بھی معاملے میں حد سے بڑھنا اور اللہ تعالیٰ جو بھی تو جانتا ہے میرے بارے مین کہ میں کہاں کہاں غلط ہوں خراب ہوں

اور بعض گناہ ہم ہنسی مذاق میں کرتے ہیں بعض اوقات جان بوجھ کر کرتے ہیں بعض اوقات خطا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ارادتا وہ کام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو ان سب کو معاف فرمادے ۔ اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔

ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہےجبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےگویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔ ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔ ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔

شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہےیہ استغفار کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور اس میں اِغفر آیا ہے امر بعض اوقات دعا کے معنوں میں بھی آتا ہے فعل امر بمعنی دعا اللھم اغفر لی خطیئتی وجھلی واسرافی فی امری وماانت اعلم بہ منی اللھم اغفر لی ھزلی وجدی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی ،ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے اللہ بخش دے مجھ کو یا میرے لئے خطا میری اور جہالت میری نادانی میری اور زیادتی میری اور میرے کام اور جو تو زیادہ جانتا ہے اس کو مجھ سے بڑھ کر ،ا ے بخش دے مجھ کو میرے لئے ہنسی سے کئے ہوئے میرے گناہ ہزل ہوتا ہے ہنسی مذاق اور کوشش کئے ہوئے یا قصداً کئے ہوئے جان بوجھ کر کئے ہوئے میرے گناہ

اور خطا میری اور عمداًکئے ہوئے میرے گناہ جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہ اور یہ سب کے سب میرے پاس ہیں یعنی میرے اندر ہیں مجھ میں موجود ہیں یہ ساری باتیں یہ اعتراف ہے اپنے سارے گناہوں کا خطاؤں کا لاعلمیوں اوربے خبری کا وہ گناہ جو ہم بے خبری میں کرتے رہتے ہیں جہل میں پتہ ہی نہیں کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور ہم کچھ اور ہی کرے جارہے ہیں اور حد سے بڑھ کر غلط کام کرنایا کسی بھی معاملے میں حد سے بڑھنا اور اللہ تعالیٰ جو بھی تو جانتا ہے میرے بارے مین کہ میں کہاں کہاں غلط ہوں خراب ہوں اور بعض گناہ ہم ہنسی مذاق میں کرتے ہیں بعض اوقات جان بوجھ کر کرتے ہیں بعض اوقات خطا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ارادتا وہ کام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو ان سب کو معاف فرمادے ۔ اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ

اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہےجبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےگویا گناہوں سے باز آنا،

آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔ ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔ ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہےیہ استغفار کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور اس میں اِغفر آیا ہے امر بعض اوقات دعا کے معنوں میں بھی آتا ہے

فعل امر بمعنی دعا اللھم اغفر لی خطیئتی وجھلی واسرافی فی امری وماانت اعلم بہ منی اللھم اغفر لی ھزلی وجدی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی ،ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے اللہ بخش دے مجھ کو یا میرے لئے خطا میری اور جہالت میری نادانی میری اور زیادتی میری اور میرے کام اور جو تو زیادہ جانتا ہے اس کو مجھ سے بڑھ کر ،ا ے بخش دے مجھ کو میرے لئے ہنسی سے کئے ہوئے میرے گناہ ہزل ہوتا ہے ہنسی مذاق اور کوشش کئے ہوئے یا قصداً کئے ہوئے جان بوجھ کر کئے ہوئے میرے گناہ اور خطا میری اور عمداًکئے ہوئے میرے گناہ جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہ اور یہ سب کے سب میرے پاس ہیں یعنی میرے اندر ہیں مجھ میں موجود ہیں یہ ساری باتیں یہ اعتراف ہے اپنے سارے گناہوں کا خطاؤں کا لاعلمیوں اوربے خبری کا وہ گناہ جو ہم بے خبری میں کرتے رہتے ہیں جہل میں پتہ ہی نہیں کہ اللہ کا حکم کیا ہے

اور ہم کچھ اور ہی کرے جارہے ہیں اور حد سے بڑھ کر غلط کام کرنایا کسی بھی معاملے میں حد سے بڑھنا اور اللہ تعالیٰ جو بھی تو جانتا ہے میرے بارے مین کہ میں کہاں کہاں غلط ہوں خراب ہوں اور بعض گناہ ہم ہنسی مذاق میں کرتے ہیں بعض اوقات جان بوجھ کر کرتے ہیں بعض اوقات خطا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ارادتا وہ کام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ تو ان سب کو معاف فرمادے ۔ اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے

ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہےجبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےگویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔ ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔

ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے یہ استغفار کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور اس میں اِغفر آیا ہے امر بعض اوقات دعا کے معنوں میں بھی آتا ہے فعل امر بمعنی دعا اللھم اغفر لی خطیئتی وجھلی واسرافی فی امری وماانت اعلم بہ منی اللھم اغفر لی ھزلی وجدی وخطئی وعمدی وکل ذلک عندی ،ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے اللہ بخش دے مجھ کو یا میرے لئے خطا میری اور جہالت میری نادانی میری اور زیادتی میری اور میرے کام اور جو تو زیادہ جانتا ہے

اس کو مجھ سے بڑھ کر ،ا ے بخش دے مجھ کو میرے لئے ہنسی سے کئے ہوئے میرے گناہ ہزل ہوتا ہے ہنسی مذاق اور کوشش کئے ہوئے یا قصداً کئے ہوئے جان بوجھ کر کئے ہوئے میرے گناہ اور خطا میری اور عمداًکئے ہوئے میرے گناہ جان بوجھ کر کئے ہوئے گناہ اور یہ سب کے سب میرے پاس ہیں یعنی میرے اندر ہیں مجھ میں موجود ہیں یہ ساری باتیں یہ اعتراف ہے اپنے سارے گناہوں کا خطاؤں کا لاعلمیوں اوربے خبری کا وہ گناہ جو ہم بے خبری میں کرتے رہتے ہیں جہل میں پتہ ہی نہیں کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور ہم کچھ اور ہی کرے جارہے ہیں اور حد سے بڑھ کر غلط کام کرنایا کسی بھی معاملے میں حد سے بڑھنا اور اللہ تعالیٰ جو بھی تو جانتا ہے میرے بارے مین کہ میں کہاں کہاں غلط ہوں خراب ہوں اور بعض گناہ ہم ہنسی مذاق میں کرتے ہیں بعض اوقات جان بوجھ کر کرتے ہیں بعض اوقات خطا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ارادتا وہ کام ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ تو ان سب کو معاف فرمادے ۔ اتباعِ نفس سے اجتناب کرتے ہوئے اس میں یکسوئی اختیار کر لو پھر اپنا آپ، حتیٰ کہ سب کچھ اﷲ کے سپرد کر دو اور اپنے قلب کے دروازے پر اس طرح پہرہ دو کہ اس میں احکاماتِ الٰہیہ کے علاوہ اور کوئی چیز داخل ہی نہ ہو سکے اور ہر اس چیز کو اپنے قلب میں جاگزیں کر لو جس کا تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اور ہر اس شے کا داخلہ بند کر دو جس سے تمہیں روکا گیا ہے اور جن خواہشات کو تم نے اپنے قلب سے نکال پھینکا ہے ان کو دوبارہ کبھی داخل نہ ہونے دو۔ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری علیہ الرحمۃ نے فرمایا : توبہ کا مطلب ہے قابلِ مذمت افعال کو قابلِ ستائش افعال سے تبدیل کرنا اور یہ مقصد خلوت اور خاموشی اختیار کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہےجبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا استغفار ہے۔ توبہ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ استغفار ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے سورہ ھود میںتوبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہےگویا گناہوں سے باز آنا، آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا اور صرف اﷲ کی طرف متوجہ ہونا توبہ ہے جبکہ اﷲ سے معافی طلب کرنا، گناہوں کی بخشش مانگنا اور بارگاہِ الٰہی میں گریہ و زاری کرکے اپنے مولا کو منانا استغفار ہے۔ ہمہ وقت گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کی صفت ہے۔ ہمیشہ گناہوں میں غرق رہنا شیطان کی خصلت ہے۔ جبکہ گناہوں پر نادم ہوکر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ ہدایت میں قدم رکھنا اولادِ آدم علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ اس کی فطرت میں موجود اعلیٰ تربلند مقامات اور جاہ و منصب تک جانے کی خواہش کی آڑ میں اسے مرتبہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے اس نے مومن بندوں کو قیامت تک گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پاکستان آئی تب شادی کا نہیں سوچا تھا مگر ائیرپورٹ پر اترتے ہی رشتہ ہو گیا !!! ایسا کیا ہوا کہ عربی لڑکی نے پاکستانی لڑکے سے شادی کا فیصلہ کر لیا؟

قطار میں لگ کر روزانہ 38 ہزار روپے کمانے والا شخص کون ہے؟ ساری کہانی اپنی زبانی بیان کر دی