in

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے؟سرکار کا ڈاکو ، عوام کا مسیحا ۔۔۔!!! قادر بخش المعروف قادو مکرانی کی اصل کہانی

ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے؟سرکار کا ڈاکو ، عوام کا مسیحا ۔۔۔!!! قادر بخش المعروف قادو مکرانی کی اصل کہانی

لاہور(ویب ڈیسک)انڈیا کی ریاست جونا گڑھ میں انگریز دورِ حکومت میں اگر کسی کی ناک کٹی ہوئی ہوتی تھی تو اِس کا عمومی مطلب یہ ہی ہوتا تھا کہ یہ شخص قادو مکرانی کا شکار بن چکا ہے۔قادو مکرانی انگریز سرکار کے لیے ’سرکش ڈاکو‘ جبکہ عام مقامی لوگوں کے لیے وطن کا رکھوالا اور امیروں سے دولت

لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرنے والا تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ کاٹھیا واڑ کے لوک گیتوں میں آج بھی قادو مکرانی کا نام زندہ ہے۔’پلاسٹک سرجری کی تاریخ‘ میں مصنفین پائلو سنتونی اور ریگیو فلپ نے انیسویں صدی میں ناک کی سرجری کے عمل میں درپیش مشکلات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر تھرونداس کا ذکر بھی کیا ہے۔ڈاکٹر تھرونداس، جن کی پیدائش جونا گڑھ کے ایک غریب خاندن میں ہوئی تھی، نے اپنے کیریئر میں تین سو افراد کی ناکوں کی سرجری کی تھی۔ مصنفین کے مطابق ڈاکٹر تھرونداس نے جس دور میں پریکٹس شروع کی ان ہی دنوں میں ڈاکو قادو مکرانی اس خطے میں سرگرم تھا اور اس کی ’وجہ شہرت‘ لوگوں کی ناک کاٹ دینا تھی۔ان ہی دنوں میں ریاست جونا گڑھ میں تعینات جانسن نامی ایک انگریز اہلکار نے ’کاٹھیا واڑ کے باغی‘ نامی کتاب میں لکھا کہ قادر بخش (قادو مکرانی) نے جونا گڑھ کے آٹھ گاؤں لوٹے، 71 تاجروں کو قتل کیا، 89 افراد کی ناک کاٹی۔ کٹی ہوئی ناکوں کی سرجری کر کر کے جونا گڑھ کے ڈاکٹر تھرداس ناک کی سرجری کے ماہر بن گئے۔قادو مکرانی کے اس عمل پر گجراتی زبان میں شاعری بھی کی گئی:’کومڈنوں کانٹوں کر لی ھیتے مانڈیو باٹ، ایک پیسہ نا آٹھ قادو نے نالج کریا۔‘ اس شعر کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ ’(دشمن کی ناک کاٹنے کے لیے) اُس نے کمر پر بندھی تلوار کو قینچی بنا دیا ہے اور کٹی ہوئی ناک کی دکان کھول رکھی ہے، جہاں ایک پیسے میں آٹھ ناک بکتے ہیں۔‘گل حسن کلمتی اپنی کتاب ’کراچی

کے آفاقی کردار‘ میں لکھتے ہیں کہ قادو مکرانی اس لیے لوگوں کی ناک کاٹ دیتا تھا تاکہ عوام کو یہ معلوم ہو سکے کہ کون شخص ’غدار‘ اور ’انگریزوں کا ساتھی‘ ہے۔مکران سے جونا گڑھ منتقلی:بلوچستان کے علاقے مکران کے رہائشی افراد کو مکرانی کہا جاتا ہے۔ گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ قادر بخش بلوچ، جو بعد میں قادو مکرانی کے نام سے مشہور ہوئے، مکران کے علاقے ’خواش‘ میں پیدا ہوئے اور اُن کا تعلق بلوچوں کے رند قبیلے سے تھا۔انگریزوں نے جب قلات سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا تو بہت سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ ان ہی دنوں مکران کو شدید قحط سالی کا سامنا تھا۔ بڑی تعداد میں مال مویشی موسمی حالات کی سختی کے باعث ہلاک ہو گئے جس کی وجہ سے بھی لوگوں کے پاس نقل مکانی کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا، اسی دوران قادر بخش کے خاندان نے خواش سے جونا گڑھ کی طرف نقل مکانی کی۔‘جونا گڑھ کے ڈاکوؤں سے مقابلہ:قادر بخش کے خاندان کا تعلق دراصل جونا گڑھ سے پہلے ہی سے تھا۔ گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ قادر بخش کے دو ماموں، ولی محمد اور علی محمد، جونا گڑھ کے نواب کے گارڈ تھے اور انھیں ’جمعدار‘ کا رتبہ حاصل تھا۔سمندری قزاقوں نے جب ریاست جوناگڑھ کے لوگوں کا جینا محال کر رکھا تھا تو ولی محمد اور علی محمد نے اُن کا مقابلہ کیا اور لوگوں کو اس مصیبت سے نجات دلائی۔ اس خدمت کے عوض نواب آف جونا گڑھ نے انھیں ’انڑاج‘ نامی علاقے میں زمین انعام میں دی تھی۔

ولی محمد اور علی محمد نے اپنا گاؤں اسی جگہ پر آباد کیا تھا۔لیاری کے کامریڈ واحد بخش بلوچ نے ماضی میں قادو مکرانی کے رشتے داروں سے ملاقات کی تھی اور بعد ازاں اس حوالے سے ایک تفصیلی مضمون تحریر کیا تھا۔اُن کی معلومات کے مطابق مزیان نامی ڈاکو اور ’عرب لٹیروں‘ کے خاتمے کے بدلے میں دونوں بھائیوں کو انعام میں جاگیر ملی تھی جو جونا گڑھ کے گائیکوار علاقے میں تھی۔سرحدی ڈاکوؤں کا قادر بخش سے مقابلہ ہوا تھا جس کے بعد نواب نے انھیں امراپور میں اور ان کے ساتھی صاحب داد کو سنائو میں زمین دی تھی۔ گاؤں بسنے کے بعد مکران سے دوسرے بہت سے خاندان بھی یہاں آ کر آْباد ہوئے۔گل حسن کے مطابق قادربخش نے نواب کے کہنے پر امراپور میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔ اس طرح ان تینوں گاؤں انڑاج، امراپور اور سونائو میں مکران سے نقل مکانی کر کے آنے والے بلوچ آباد ہوئے۔مکرانی بلوچ اگرچہ نواب آف جونا گڑھ کے وفادار تھے لیکن کچھ مقامی لوگوں نے ان کے خلاف نواب کو شکایتیں لگانا شروع کر دیں۔ گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ ان دنوں جونا گڑھ کے علاقوں کاٹھیا واڑ، کچھ اور گجرات میں انگریز سرکار نے نوابوں اور سرداروں سے مل کر غریبوں کا جینا محال کر دیا تھا، ان افراد میں قادر بخش کے قبیلے کے لوگ بھی شامل تھے۔گل حسن کے مطابق اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے قادر بخش اور اُن کے ماموں نے مسلح نوجوانوں کے جتھے تیار کر لیے۔ دوسری جانب ایک انگریز افسر سکاٹ جیفری

ان مکرانیوں سے ناراض تھے اور وہ قادر بخش کے ماموں علی محمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کے لیے بہانے کی تلاش میں رہتے تھے۔ایک مرتبہ گھروں کے سروے کے بہانے انگریزوں حکومت کے اہلکار علی محمد کے گاؤں انڑاج آئے اور ان سے اسلحہ کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ علی محمد نے انھیں جواب دیا کہ اسلحہ ہمارا زیور ہے، اسے جمع کرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘واحد بلوچ لکھتے ہیں کہ نواب آف جونا گڑھ رسول خانجی نے اپنے دیوان ہری داس کو حکم دیا کہ وہ انڑاج جا کر لوگوں کو غیر مسلح کر کے ہتھیار لے آئیں اور اگر لوگ ہتھیار نہ دیں تو گاؤں خالی کروا دیں۔جب دیوان نے یہ شاہی حکم سنایا تو لوگوں نے گاؤں خالی کرنے کے بجائے مزاحمت کا فیصلہ کیا۔انگریز حکام نے متنبہ کیا کہ ’چوبیس گھنٹے کے اندر ہتھیار جمع کروائے جائیں، یا پھر مقابلے کے لیے تیار رہیں۔‘ اس پر قادر بخش نے اعلان کیا کہ وہ مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے اپنی خواتین اور بچوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا۔14 اگست 1844 کا دن تھا۔ انگریز فوج کے کمانڈر سکاٹ، جو مانک واڑہ کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی تھے، نے گاؤں پر حملہ کیا۔ واحد بلوچ کے مطابق گاؤں والوں نے علی محمد، صاحب داد اور قادر بخش کی قیادت میں ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن توپخانے نے تباہی مچا دی۔دوران مقابلہ قادر بخش کو ان کے ماموں علی محمد نے ساتھیوں سمیت امراپور جانے کا مشورہ دیا، جس پر قادر بخش، صاحب داد اور دیگر ساتھیوں

سمیت وہاں سے نکل گئے۔وہاں رہ جانے والے ان کے ماموں اور دیگر افراد اس مقابلے میں ہلاک ہو گئے۔خواتین اور بچوں کے بدلے قادو مکرانی کی گرفتاری کی کوشش:واحد بلوچ کے مطابق جب انگریز افسر سکاٹ کو معلوم ہوا کہ قادر بِخش اور ساتھیوں نے لڑائی میں حصہ لیا ہے اور علاقے سے بچ کر نکل گئے ہیں تو انھوں نے اس قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر کے دیراڑ جیل میں ڈالنے کا حکم دیا۔ ان کا خیال تھا یہ سُن کر قادر بخش اور ساتھی گرفتاری پیش کر دیں گے۔جونا گڑھ کے دیوان ہری داس نے حکم دیا کہ جا کر عورتوں اور بچوں کو گرفتار کریں۔ جب قادر بخش اور ان کے ساتھیوں کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے پربھاشن پائن کے قریب بھال پور گاؤں میں قافلے پر حملہ کر دیا جس میں دو سوار مارے گئے۔ سکاٹ نے بمبئی کے اخبارات میں قادر بخش مکرانی کو ڈاکو قرار دے دیا اور یوں ایک ایسا شخص جسے ڈاکوؤں سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا وہ خود ڈاکو قرار پایا۔اس کے بعد قادر بخش نے اپنے بیوی بچوں کو مکران روانہ کر دیا اور انگریز افسر کو یہ پیغام بھیجا کہ ’ایک دیوس ماں ایک گام بھانگے تو سمجھو سادھویے بھانگیو، اے تڑن گام بھانگے تو قادوئے بھانگیو۔‘ یعنی ’اگر ایک دن میں ایک گاؤں لٹ جائے تو سمجھنا سادہو نے لوٹا ہے اور اگر ایک دن میں 30 گاؤں لٹ جائیں تو جان لینا قادو نے لوٹے ہیں۔قادر بخش نے نوجوانوں کا گروپ بنایا اور جونا گڑھ،

کاٹھیا واڑ، گجرات اور کچھ میں انگریزوں اور ان کے حماتیوں کے خلاف لوٹ مار کی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ایسی کئی کہانیاں مشور ہوگئیں کہ وہ امیروں سے لوٹتا ہے اور غریبوں، کسانوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔گل حسن کلمتی کے مطابق وہ انگریزوں کے کارندوں سے دولت لوٹ کر غریب کاٹھیا واڑیوں اور گجراتیوں میں تقیسم کرتا اور غریبوں کی شادیاں کرواتا تھا۔واحد بخش بلوچ کے مطابق قادر بخش اور ان کے ساتھی کبھی ایک جگہ نہیں رکتے تھے اور علاقہ تبدیل کرتے رہتے۔ بعض حوالوں کے مطابق قادو مکرانی کی اس قدر دہشت پھیل گئی کہ جونا گڑھ کے دیوان اپنی بیٹی کی شادی میں ڈر اور خدشات کے باعث شرکت نہ کر سکے۔گل حسن کلمتی ’کراچی کے آفاقی کردار‘ میں لکھتے ہیں کہ قادو مکرانی کو گوریلا جنگ میں جونا گڑھ کے علاقے گجرات کے سیلاوٹ، کاٹھیا واڑی بلوچوں کے علاوہ گجرات کا پڑھے لکھے اور پسے ہوئے طبقات کی حمایت حاصل تھی۔ آہستہ آہستہ انگریزوں کے خلاف ’وطن پرستوں‘ کا یہ قافلہ بڑھتا گیا۔عورتوں کا احترام:قادو مکرانی کے لیے لکھے گئے گیتوں میں خواتین بھی اس سے مخاطب ہوئی ہیں۔ قادو کے کئی روایتی قصے مشہور تھے جیسا کہ انھوں نے کبھی کسی خاتون کو نہیں لوٹا۔ اور اس کا اعتراف خود انگریز بھی کرتے تھے۔انگریز افسر جانسن نے اپنی نوشتہ یادداشتوں میں لکھا ہے کہ میروال ندی کے کنارے چھاؤنی تھی اور وہ پولیٹیکل افسر سکاٹ کی اہلیہ کو فوجی تانگے میں لے کر جا رہے تھے کہ حاجی مانگر وڈی شاہ کے مقبرے کے پاس اچانک قادر بخش نمودار ہوا

اور للکارا ’تم کون ہو، تانگے میں کون ہے؟‘میں نے بتایا میں کپتان ہوں اور تانگے میں سکاٹ کی اہلیہ ہیں۔ یہ سُن کر قادر بخش راستے سے ہٹ گیا اور کہنے لگا ’ہم عورتوں کا احترام کرتے ہیں، اگر سکاٹ خود موجود ہوتا تو اس کو زندہ نہیں چھوڑتا۔‘قادو مکرانی کراچی شہر سے واقف نہیں تھے اس لیے انھوں نے لیاری جانے کے لیے کرائے پر اونٹ حاصل کیا، مگر سار بان نے انھیں پہچان لیاقادو مکرانی کی کراچی روانگی:قادر بخش کی دشمنوں میں انگریز، جونا گڑھ کے نواب اور دیوان سب شامل تھے۔ انگریز سرکار نے ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر 20 ہزار نقد رقم اور 20 ایکڑ زمین انعام رکھا تھا۔دوستوں نے قادر بخش کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ دنوں کے لیے مکران چلے جائیں اور حالات سازگار ہونے پر واپس آ جائیں۔گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ کراچی بندرگاہ پر سخت نگرانی ہونے کی وجہ سے قادر بخش ملیر کے اولڈ تھانے والے علاقے میں آئے، ایک اونٹ کرائے پر لے کر کراچی کا رخ کیا۔ قادو کی اہلیہ لیاری میں رہتی تھیں اور اُن دنوں مکران کی سواری بھی لیاری ہی سے دستیاب ہوتی تھی۔واحد بلوچ لکھتے ہیں کہ قادر بخش احمد آباد سے بذریعہ ٹرین سندھ میں داخل ہوئے تھے، اس طرح کچھ حوالوں میں ہے کہ وہ سادھو کے بہروپ میں داخل ہوئے تھے۔سار بان کی غداری :گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ قادو مکرانی کراچی شہر سے واقف نہیں تھے۔ انھوں نے لیاری جانے کے لیے کرائے پر اونٹ حاصل کیا، سار بان (اونٹ چلانے والا) نے ان کو پہچان لیا تھا۔

اس نے بغدادی تھانے کے قریب اپنا اونٹ کھڑا کیا اور دوسرا اونٹ لانے کا بہانہ کر کے تھانے میں چلاگیا، مخبری کی اور ایک سپاہی کو ساتھ لے کر واپس پہنچا۔قادو سمجھ گیا کہ سار بان نے مخبری کی ہے، اس نے خنجر کے وار کر کے دونوں کو ہلاک کر دیا اور فرار ہونے کی کوشش کی ۔قادو مکرانی اس جگہ کی گلیوں سے ناواقف تھے۔ گل محمد لین میں پولیس نے ڈاکو ڈاکو کی آوازیں لگا کر ان کا پیچھا کیا۔ گلی میں ایک مزدور دیوار بنا رہا تھا، اس نے یہ نظارہ دیکھا اور قادو مکرانی کے سر پر اینٹ مار دی جس سے وہ زخمی ہوگئے اور گرفتار ہوئے۔بعدازاں پولیس نے ان کے ساتھیوں الھداد، دین محمد اور محمد کو گرفتار کر لیا۔ الھداد اور دین محمد کو جونا گڑھ بھیجا گیا جہاں انھیں سزائے موت سنائی گئی، جبکہ قادر بخش کو سنہ 1887 میں کراچی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔گل حسن کلمتی لکھتے ہیں کہ قادر کی میت لیاری کی معزز شخصیت واجہ فقیر محمد درا خان نے وصول کی۔ ان کی نماز جنازہ لیاری کے درا لین مسجد میں ادا کی گئی اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی۔ ان کی تدفین لیاری کے میوہ شاہ قبرستان میں کی گئی۔ قبر پر لوگوں کی آمد بڑھنے کی وجہ سے انگریز حکومت نے یہاں آنے پر پابندی لگا کر قبر پرگارڈز تعینات کر دیے۔قادو مکرانی کی قبر کے ساتھ ایک پتھر موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہی اینٹ ہے جو مزدور نے ان کے سر پر دے ماری تھی اور قبر پر ’شہید قادو مکرانی مجاہد سکنہ کاٹھیواڑ‘ تحریر ہے۔واحد بلوچ بتاتے ہیں کہ قادو کی ایک ہمشیرہ آسو گوٹھ ملیر میں رہتی تھیں جبکہ کچھ رشتے دار کلا کوٹ لیاری میں مقیم تھے تاہم جب جونا گڑھ میں حالات بہتر ہوئے تو یہ کنبہ دوبارہ واپس چلا گیا۔لیکن تاریخ کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ریاست جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے اعلان کے بعد نواب آف جونا گڑھ کو پاکستان میں پناہ لینی پڑی اور ان کی اولاد اس وقت کراچی میں مقیم ہے جبکہ قادو جسے کراچی میں پھانسی دی گئی اس کی اولاد اور خاندان اس وقت جونا گڑھ میں ہے۔(بشکریہ بی بی سی)

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پشاور: آزادی کے بعد پاکستان میں رہنے والی ہندو برادری نے اپنے مردے جلانے کے بجائے دفنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جانئے

انسان ڈاکو خود بنتا ہے یا اسے بنایا جاتا ہے ؟سلطانا ڈاکو اور برصغیر کے چند مشہور ’لٹیروں‘ کی ناقابل یقین داستانِ حیات