پشاور: آزادی کے بعد پاکستان میں رہنے والی ہندو برادری نے اپنے مردے جلانے کے بجائے دفنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جانئے
لاہور(ویب ڈیسک)اویناش اور آکاش لال کا تعلق تو دو مختلف ہندو خاندانوں سے ہے لیکن دونوں کی کہانی ایک جیسی ہے۔ نوتھیہ کے قدیم قبرستان میں دونوں کے آباؤ اجداد مدفن ہیں۔اویناش کے دادا اور آکاش کے والد رام لال دونوں ہی سنہ 2018 میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ دونوں کی وصیت کے مطابق ان کو مذہبی رسومات
کے مطابق (انتم سنسکار) جلانے کے بجائے دفنانے کا فیصلہ کیا گیا۔آکاش لال کے مطابق ’ان کے والد رام لال ہندو کمیونٹی کے صدر ہونے کے ساتھ پشاور صدر کالی باڑی کے سیوک ( خدمت گار) تھے اور اپنے دھرم کے حوالے سے بڑے کٹر تھے۔ ہندو تعلیمات اور رسوم و رواج پر وہ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔‘تاہم انھیں بچپن میں اپنے والد سے سنی کہانی آج بھی من وعن یاد ہے۔ ’وہ بتایا کرتے تھے کہ تقسیم کے بعد ہندو برادری اقلیت میں آگئی جو معاشی طور پر بھی کمزور تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندو کسی طور مسلم اکثریتی علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا تنازعہ مول لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے لہذا مسلمانوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی یہی صورت تھی کہ جن معاملات میں یکجہتی اور یکسانیت ظاہر کی جا سکتی تھی، کر لی جائے۔‘وہ کہتے ہیں ’ایسے میں آخری رسومات پر جب نظر دوڑائی گئی تو ان کے دادا نے وصیت کر دی کہ ان کے انتقال کی صورت میں انھیں جلانے کی بجائے دفنا کر کریاکرم (آخری رسومات) کیا جائے۔‘آکاش نے مزید بتایا کہ دادا کے بعد ان کے بھائیوں اور پھر ان کی دادی کو بھی دفنایا گیا اور جب رام لال کا آخری وقت قریب آیا تو انھوں نے بھی خاندانی رسم و رواج کے مطابق اپنے والد والدہ کے پاس ہی خود کو دفن کرنے کی وصیت کی۔اویناش کے دادا، دادی اور پردادا بھی وصیت کے مطابق دفنائے گئے۔ اویناش کہتے ہیں کہ انھوں نے بھی گھر پر لگ بھگ
آکاش کی کہانی جیسی ہی باتیں سن رکھی ہیں کہ کیسے اس زمانے میں مسلم ہندو فسادات اور لڑائی جھگڑوں سے بچنے کے لیے ان کے آباؤ اجداد نے آخری رسومات میں دفنائے جانے کو ترجیح دی۔اویناش کا کہنا ہے کہ ان کے والد شری کبیر داس اب بیمار رہتے ہیں ان کی صحت کو لے کر وہ فکر مند تو ہیں مگر زندگی موت کی امانت ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں۔اویناش اس صورتحال میں جب مستقبل کا سوچتے ہیں تو ان کی ذاتی رائے یہ ہے کہ ’اب چونکہ حالات ماضی جیسے گھمبیر نہیں ہیں لہذا ان کے والد کی وفات کی صورت وہ انھیں ہندو دھرم کے انتم سنسکار کے طریقے سے اگنی چتا (جلانے ) کے خواہشمند ہیں تاہم اگر ان کے والد بھی اپنے دادا پردادا ہی کی طرح دفنائے جانے کی وصیت کریں گے تو انھیں اس وصیت کا احترام کرنا ہو گا۔‘ہندو دھرم میں موت کے بعد انتم سنسکار سے مراد مکتی (دائمی نجات) ہے۔ اس حوالے سے پشاور کے 76 سال کے پنڈت دیپ چند کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسانی جسم مٹی، پانی، آگ، آسمان اور ہوا کا مجموعہ ہے اور موت کے بعد انسان کی مکتی اسی اصلیت کی طرف لوٹنے میں پوشیدہ ہے۔ہندو برادری کی آخری رسومات میں مردے کو جلانے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے لیکن انتم سنسکار کا ایک اور طریقہ ہندو عقیدے میں جل پروان یعنی میت کو بہتے پانی میں بہانا ہے۔پنڈت دیپ چند نے بتایا کہ اپنی 76 سال کی زندگی
میں انھیں جل پروان کے دو واقعات یاد ہیں۔ پہلا پچاس سال قبل نوشہرہ اور دوسرا کوئی تیس برس پہلے پشاور کے ایک ہندو کا ہے۔ دونوں کے جل پروان دریائے اٹک میں کیے گئے تھے۔دیپ چند کا مؤقف ہے کہ خیبر پختونخوا میں جل گھاٹ کا رواج نہ ہونے کی وجہ دریاؤں اور ندیوں کی کمی بھی ہے۔اس کے علاوہ ایک اور طریقہ سمادھی ہے مگر وہ انتہائی نیک، پرہیز گار اور عبادت گزار ہندو کی ہی بنائی جاتی ہے۔پنڈت دیپ چند کے مطابق ہندو دھرم میں دفنانے کے حوالے سے کوئی روایت موجود نہیں ماسوائے نابالغ بچوں کے یا حادثاتی طور پر کسی کی ایسی موت جس میں میت کو فوری جلانا ممکن نہ ہو۔پنڈت دیپ چند کے مطابق انڈیا میں نوے فیصد ہندوؤں کو اگنی سنسکار ہی دیا جاتا ہے البتہ دس فیصد کو ان کی خواہش کے مطابق جل گھاٹ بھی کیا جاتا ہے۔ کسی وجہ کی بنا پر کوئی اپنے مردے دفن کرتا ہو تو اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔البتہ اگر مرنے والے کا خاندان یہ کہے کہ اگلا جہان سدھارنے والے کی یہ وصیت تھی کہ اسے جلانے کی بجائے دھرتی کے سپرد کیا جائے تو پنڈت یا مذہبی عقائد اس حوالے سے اس کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ اس صورت میں قبر میں اتارنے کے بعد گیتاپاٹ (ہندو مذہبی کتاب) کے ورد کے دوران میت کی دائیں ہتھیلی پر تانبے کا سکہ دہکا کر رکھا جاتا ہے جس پر گلاب جل چھڑکنے کے فوراً بعد مٹھی کپڑے سے بند کر دی جاتی ہے۔اس سارے عمل کا
مقصد اگنی چتا اورجل پروان کی رسم پوری کرنا ہے۔پنڈت دیپ چند کا تقسیم ہند کے دوران اور بعد میں آخری رسومات کے حوالے سے کی جانے والی وصیتوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مجبوراً کرنا پڑا لیکن کافی حد تک مثبت رہا جس کے اثرات آج بھی اس صورت دکھائی دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’جب بھی کسی ہندو کو اگنی سنسکار کے بجائے دفنایا جاتا ہے تو اس کی آخری رسومات میں مسلمان دوست احباب اور محلے دار بھی شرکت کرتے ہیں جو مذہبی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کی اچھی مثال ہے۔‘پشاور نوتھیہ میں گذشتہ صدی کے قبرستان میں اویناش اور آکاش کے آباو اجداد ہی نہیں دیگر ایسے خاندانوں کی قبریں بھی موجود ہیں جنھیں کسی وصیت کے تحت دفنایا گیا مگر مدفن لوگوں میں سینکڑوں ایسے بھی ہیں جو وسائل نہ ہونے کے سبب اگنی سنسکار سے محروم رہے۔اگنی سنسکار کے لیے 12 من مہنگی لکڑی سمیت گھی، ناریل کافور اور دیگر کئی اشیا کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے لیکن جو سب سے بڑا مسئلہ انھیں درپیش ہوتا ہے وہ شمشان گھاٹ کی کم دستیابی کا ہے۔ایک شہر سے دوسرے شہر تک میت کی منتقلی پر کم از کم پچاس تا ساٹھ ہزار خرچہ آتا ہے جسے اٹھانا ہندو برادری کے غریب افراد کے بس سے باہر ہے۔ ایسے حالات میں انھیں اپنے پیاروں کو مجبوراً قریبی قبرستان میں ہی دفنانا پڑتا ہے۔پشاور کے سرگرم مذہبی اقلیتی رہنما ہارون سرب دیال کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 25 کے تحت انھیں پاکستانی شہری ہونے کے
تمام حقوق برابر حاصل ہیں مگر آج 70 سال بعد بھی وہ برابری کے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں 50 ہزار کے آس پاس ہندو ہیں مگر ان کی آخری رسومات کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔ہندو برادری کے دیرینہ مطالبے پر خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری کے لیے شمشان گھاٹ اور الگ قبرستان کے قیام کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن ہندو رکن روی کمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں پشاور کے علاوہ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد نوشہرہ، سوات، ڈیرہ اسماعیل خان، بونیر، ہنگو، کوہاٹ اور بنوں کے اضلاع میں رہائش پذیر ہے۔ہندو اقلیتی رہنما ہارون سر دیال کہتے ہیں آرٹیکل 25 کے تحت ہندو برادری کو مذہبی آزادی دی گئی تاہم ستر سال بعد بھی وہ اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیںاس وقت کوہاٹ، مردان، بونیر اور سوات میں شمشان گھاٹ موجود ہیں تاہم حکومت نے زمین کی خریداری کے لیے چند دن قبل 10 اضلاع میں سیکشن فور نافذ کر دیا،
جس کے لیے 10 کروڑ روپے بجٹ میں مختص ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں زمین کی خریداری ہورہی ہے جس کے بعد پشاور سمیت دیگراضلاع میں شمشان گھاٹ نہ ہونے کی وجہ سے اقلیتی برادری کو درپیش مشکلات میں کمی آئے گی۔یاد رہے سنہ 2018 میں بھی ہندوؤں نے اپنے اس دیرینہ مسلے کے حل کے لیے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس پرعدالت نے انتظامیہ کو انھیں فوری شمشان گھاٹ مہیا کرنے کا حکم دیا تھا۔ (بشکریہ بی بی سی)