ماں کے پاس اونچی آواز میں کلمہ طیبہ پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک خاتون کی ہمدردانہ آواز آئی کہ بھائی ذرا پیچھے ہٹیں، میں ڈاکٹر ہوں مجھے دیکھنے دیں اور پھر ۔۔۔
اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انسانیت کی قدر کرنا جانتے ہیں، ہر مشکل وقت میں ہر ممکن مدد کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی بات کی جارہی ہے جو انسانی خدمات اور ان کی زندگی بچانے میں دن رات ایک کر دیتے ہیں ، انہیں اپنی فیملی تک کی پرواہ نہیں ہوتی ،
اور پھر وباء کے دنوں میں چوبیس گھنٹے اسپتال میں زیرِ علاج مریضوں کی دیکھ بھال کا ذمہ اپنے سر لیتے ہیں۔آج ایک ایسی ہی کہانی ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں جسے پڑھ کر آپ آبدیدہ ہوجائیں گے۔یہ واقعہ ہے چارسدہ کے رہائشی ممتاز خان کا جن کی والدہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور کے کورونا وارڈ میں زیر علاج تھیں۔وہ اپنی دکھ بھری داستان سنار ہے ہیں۔ ممتاز خان بتاتے ہیں کہ میں اپنی ماں کے بستر کے پاس اونچی آواز میں کلمہ پڑھ رہا تھا کہ اچانک مجھے ایک خاتون کی ہمدردانہ آواز سنائی دیتی ہے کہ بھائی ذرا پیچھے ہٹیں، میں ڈاکٹر ہوں مجھے ان خاتون کو دیکھنے دیں۔اُن خاتون نے میری والدہ کو دیکھا اور اچانک کہا کہ جلدی کریں،ان کو نیچے ایمبولینس میں لے کر جائیں۔ میں اپنی والدہ کو اٹھانے کے لیے تیزی سے دوڑا تو ایک اور نوجوان میری طرف آیا اور میرے ساتھ میری والدہ کو اٹھا کر ایمرجنسی میں پہچانے کے لیے ایمبولینس میں ڈالا۔ ساتھ ہی وہ نوجوان ایمبو بیگ کے ذریعے ہاتھوں سے میری والدہ کو آکسیجن فراہم کرتا رہا۔ممتاز خان کی والدہ کی صحت خوش قسمتی سے ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے کے باوجود بروقت مدد ملنے کی وجہ سے دن بہ دن بہتر ہو رہی ہے۔ممتاز خان نے بتایا کہ مدد کو پہنچنے والی خاتون کو وہ پہلے سے جانتے تھے کیونکہ وہ اُن کے ساتھ ہی تین دن قبل اپنی والدہ کو لے کر اسپتال آئی تھیں، اور ہر وقت اپنی والدہ ہی کے پاس رہتی تھیں۔وہ خود ہی اپنی والدہ کا ہر وہ خیال رکھتیں جو طبی عملہ رکھتا تھا۔ پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک ڈاکٹر ہیں۔ مجھے واقعے کے بعد پتا چلا کہ ان کا نام ڈاکٹر شازیہ شمس ہے۔حیران
کن میرے لئے یہ بھی تھی کہ جس نوجوان نے میری والدہ کو ایمرجنسی تک پہنچانے میں مدد کی تھی، وہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال ہی میں رجسٹرار ڈاکٹر محمد ساجد ہیں۔ممتاز خان کا کہنا تھا کہ میری والدہ پائپ آکسیجن پر تھیں۔ ان کا آکسیجن لیول گر کر 80 پر جا چکا تھا اور ان کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ میں نے بہت شور مچایا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس موقع پر اپنے گھر فون کیا۔ اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا بس ماں کے پاس کھڑے ہو کر اونچی اونچی آواز میں کلمہ پڑھنا شروع کردیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں ڈاکٹرز اُن کی مدد کو وقت پر نہ آتے اور کچھ منٹ اور دیر ہوجاتی تو حالات سوگوار ہوجاتے۔صرف ممتاز خان ہی نہیں بلکہ کورونا وارڈ میں موجود متعدد مریضوں کے رشتے داروں نے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ینگ ڈاکٹروں کی بھرپور مدد کا اعتراف کیا اور انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا ہے۔واقعے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ انسانی غفلت شاملی تھیدوسری جانب ڈاکٹر شازیہ شمس کرک میں میڈیکل آفیسر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی والدہ کورونا سے متاثر ہوئیں تو انھیں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں داخل کروایا گیا اور اس موقع پر ڈاکٹر شازیہ شمس نے فیصلہ کیا کہ ہسپتال میں رہ کر وہ خود والدہ کا خیال رکھیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ اُن کے خاندان میں تقریباً سب
ہی کورونا سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوچکے ہیں۔والدہ کا علاج ہم گھر پر بھی کر سکتے تھے، مگر جب یہ محسوس ہوا کہ ان کو آکسیجن کی ضرورت ہے تو ان کو ہسپتال میں داخل کروا کر خود ہی خیال رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ طبی عملے پر بہت زیادہ بوجھ ہے۔ڈاکٹر شازیہ شمس کا کہنا تھا کہ مذکورہ رات اُن کی والدہ کی طبیعت باقی مریضوں کے مقابلے میں قدرے بہتر تھی اور ان کو آکسیجن ماسک لگایا تھا۔’اس روز میں تھوڑا آرام کر کے 11 بجے اپنی والدہ کے پاس پہنچی تھی۔ کوئی بارہ بجے کا وقت ہوگا کہ وارڈ میں افراتفری پیدا ہوگئی۔ مریضوں کے رشتے دار شور شرابہ کرنے لگے۔ مجھے فوری طور پر سمجھ نہیں آیا کہ کیا بات ہے کیونکہ میری والدہ کی طبعیت قدرے بہتر تھی اور ان کو سانس لینے میں زیادہ مسائل کا سامنا نہیں تھا۔‘وہ کہتی ہیں کہ جب اُنھیں پتا چلا کہ مریضوں کو آکسیجن نہیں
مل رہی تو ’میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی‘۔ڈاکٹر شازیہ بتاتی ہیں کہ اسپتال میں قیامت خیز مناظر تھے۔ مریضوں کے رشتے دار بھاگم دوڑ کر رہے تھے۔ میں نے ایک نظر اپنی والدہ پر ڈالی اور دیکھا کہ ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔’بھلے ہی میری ڈیوٹی اس ہسپتال اور وارڈ میں نہیں تھی مگر میں تو ڈاکٹر تھی اور اس موقع پر مریضوں کے کام آنا میرا فرض تھا۔ اس موقع پر میں نے وارڈ میں موجود ڈاکٹر سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ سلنڈر اور ایمبو بیگ دستیاب ہیں۔ میں نے ایمبو بیگ لیا اور جس مریض کی حالت زیادہ خراب ہورہی تھی ان کو ایمبو بیگ کے ذریعے آکسیجن فراہم کرنی شروع کر دی۔ڈاکٹر ساجد نے دیگر نوجوان ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر کئی مریضوں کی جانیں بچائیں، کہا گیا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں موجود ڈاکٹر محمد ساجد کا کردار کسی ہیرو سے کم نہیں تھا۔ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ اس موقع پر مریضوں کے رشتے دار انتہائی مشتعل ہو گئے تھے۔’مجھے وہ وارڈ میں ایک مریضہ کے عزیز کی حیثیت سے جانتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہسپتال اور ڈاکٹر ادھر ہی ہیں، مگر وقت ضائع نہ کرو اور اپنے مریضوں کو ایمرجنسی میں پہنچاؤ، سلنڈر لا کر دو۔‘وہ بتاتی ہیں کہ اُنھوں نے خود کئی خواتین مریضوں کو اٹھا کر ایمولینس اور ایمرجنسی تک پہنچایا۔ان کے مطابق اس موقعے پر اُنھوں نے دیکھا کہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال
کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد ساجد جو کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما بھی ہیں، کچھ ڈاکٹرز کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے تھے۔ڈاکٹر محمد ساجد کا کہنا ہے کہ اگر وہ سب لوگ مل کر آگے نہ بڑھتے اور بروقت مریضوں کو ایمبو بیگ اور سلنڈر تک نہ پہنچاتے تو نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا تھاڈاکٹر محمد ساجد میڈیکل سی وارڈ میں بحیثیت رجسڑار خدمات انجام دیتے ہیں۔ انھیں کوئی ساڑھے بارہ بجے اطلاع ملی کہ ہسپتال میں آکسیجن ختم ہے اور مریضوں کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ ہاسٹل کے اپنے کمرے میں تھے۔اس وقت کورونا وارڈ میں 90 مریض تھے جن کو مختلف سطح کی آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ڈاکٹر محمد ساجد کا کہنا تھا کہ اُنھیں وارڈ کے ڈاکٹر نے بتایا کہ اُن کے پاس صرف ایک ہی صورت بچی ہے کہ مریضوں کو سلنڈر کے علاوہ ایمو بیگ لگائے جائیں اور ایمرجنسی میں پہنچایا جائے کیونکہ وقت
بہت کم ہے۔’مجھے نہیں پتا کہ میں نے کون سا جوتا پہنا اور کون سا نہیں۔ اسی دوران اپنے ساتھیوں کو فون کرتے کرتے وارڈ پہنچ گیا۔ وہاں پر پہلے جن مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہو رہی تھی، ان کو ایمبو بیگ کے ذریعے سے آکسیجن پہنچائی۔ اس کے بعد سلنڈر لگائے اور مریضوں کو ایمرجنسی میں پہنچایا۔‘ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا کام تھا اور صرف چند ڈاکٹر اکیلے صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔’مریضوں کے رشتے داروں کی اکثریت غصے اور اشتعال کی کیفیت میں تھی۔ اس موقع پر ہمارے ساتھ طبی عملے اور ہسپتال کے دیگر عملے نے بھی بھرپور مدد کی۔‘ڈاکٹر محمد ساجد کا کہنا ہے کہ اگر یہ سب لوگ مل کر آگے نہ بڑھتے اور بروقت مریضوں کو ایمبو بیگ اور سلنڈر تک نہ پہنچاتے تو نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا تھا۔