یہ کون سا اسلام ہے؟ حلالہ ہوا نہیں، دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کروا دیا ۔۔
اداکار فیروز خان اور ثناء جاوید کی جوڑی جس ڈرامے میں نظر آ جائے وہ سپر ہٹ ہو جاتا ہے۔ چاہے اس کا کوئی خاص مقصد ہو یا نہ ہو، کوئی اچھی کہانی ہو یا نہ ہو فیروز اور ثناء کی جوڑی فینز کو اپنی طرف خود ہی متوجہ کر لیتی ہے۔ نجی ٹی وی
اداکار فیروز خان اور ثناء جاوید کی جوڑی جس ڈرامے میں نظر آ جائے وہ سپر ہٹ ہو جاتا ہے۔ چاہے اس کا کوئی خاص مقصد ہو یا نہ ہو، کوئی اچھی کہانی ہو یا نہ ہو فیروز اور ثناء کی جوڑی فینز کو اپنی طرف خود ہی متوجہ کر لیتی ہے۔ نجی ٹی وی چینل پر دکھائے جانے والے ڈرامے اے مُشتِ خاک
کو بہت پزیرائی ملی۔ اس ڈرامے کی پہلی قسط سے لے کر آخری قسط تک کرداروں کا ربط آپس میں یوں جُڑا رہا جیسے ایک فیملی کا تعلق ہوتا ہے۔ اس ڈرامے میں بھائی کا کردار نبھانے والے اداکار اسد نے روایتی بھائیوں سے ہٹ کر کردار پیش کیا جو ڈرامے میں سب سے زیادہ مثبت بات تھی۔
ڈرامے کی کہانی تو سب ہی جانتے ہیں کہ مستجاب ایک ایسا لڑکا تھا جو بیرونِ مُلک رہتا تھا اس کو اسلام سے کوئی لگاؤ نہیں تھا اور نہ اس کی والدہ نے اس کی تربیت دین کے حساب سے کی تھی۔ مستجاب پاکستان آیا، جہاں اسے دُعا پسند آگئی تھی اور پاگل پن کا دورہ اسی دن سے شروع ہوا، ہر وقت دُعا کے آگے پیچھے گھومتا رہا، یہاں تک کہ دونوں کی شادی ہوگئی۔ لیکن دُعا چونکہ مذہب کو پسند کرنے والی تھی،
نماز روزے کی پابند تھی۔ دونوں کی لڑائی مذہب کے اصولوں پر نہ چلنے کی وجہ سے ہوئی اور پھر علیحدگی ہوگئی۔ دونوں نے کورٹ کے ذریعے طلاق لے لی۔ جس کے بعد مستجاب نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کو دل سے پڑھنا اور جاننا شروع کیا اور اپنے آپ کو نمازی پرہیزگار بنا لیا۔ مستجاب کا دل اتنا بدل گیا کہ وہ شریعت کے اصولوں کے سوا کچھ بھی کرنے کے بارے میں نہیں سوچتا تھا، اس نے مدرسہ بنایا، قرآن پڑھنا سیکھا، امامت بھی کروائی۔
ڈرامے کی آخری قسط میں جبکہ دعا کا نکاح اپنی بھابھی کے بھائی تقی سے ہونے والا تھا تو امام صاحب نے مستجاب کو یہ نکاح پڑھانے کا کہا، جس پر تقی نے اعتراض کیا اور اس وقت اس نے مستجاب کو کہا کہ تم میری جگہ بیٹھو اور دعا سے نکاح کرو۔ اب دعا اور مستجاب کا نکاح تو ہوگیا مگر بات یہ سمجھ نہیں آئی کہ اسلام میں پہلے شوہر سے طلاق کے بعد جب تک کسی دوسرے مرد سے نکاح یعنی حلالہ نہیں ہو جاتا جب تک دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح ہو ہی نہیں سکتا، اور پھر ڈرامے میں دعا اور مستجاب نے ایک ہی جا نماز پر بیٹھ کر دُعا مانگی جو ہمارے مذہب کے منافی ہے۔
اسی بات پر سوشل میڈیا صارفین خوب منفی کمنٹس کر رہے ہیں۔ جہاں اس ڈرامے کی کہانی اور ڈائیلاگز ہر کسی کو خوب پسند آئے، سب کے دل جیتے وہیں ڈرامے میں حلالہ نہ دکھانے پر صارفین نے خوب آڑے ہاتھوں بھی لیا۔ صارفین نے کہا کہ یہ کونسا اسلام ہے؟ دعا نے اپنے لباس اور کردار سے لے کر عبادت تک میں اپنے طریقے سے اسلام کو ڈھالنے کی کوشش کی، تو کسی نے کہا کہ یہ حلالہ کے بغیر کیسے مستجاب کا دوبارہ اس کے نکاح ہوا؟ کسی نے کہا کہ بکواس ڈرامہ ہے تو کسی نے کہا کہ امام صاحب نے جس طرح اس ڈرامے میں شروع سے آخر تک سمجھانے کی باتیں کیں وہ آج کے دور میں اگر حقیقی زندگی میں علماءِ کرام کریں تو یقیناً ہر بھٹکا ہوا شخص راہِ راست پر آجائے۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں نے محبت کی اس کہانی کے ملاپ کو خوبصورت ڈرامہ بھی قرار دیا۔