in

پروین شاکر کے اکلوتے بیٹے سید مراد علی شاہ کو ایک کامیاب انسان بنانے میں محترمہ بینظیر بھٹو کا کیا کرادار نکل آیا؟حیران کن انکشاف

پروین شاکر کے اکلوتے بیٹے سید مراد علی شاہ کو ایک کامیاب انسان بنانے میں محترمہ بینظیر بھٹو کا کیا کرادار نکل آیا؟حیران کن انکشاف

پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کے دوستوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ وہ انھیں ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دیں۔مراد کا کہنا تھا ’مجھے امی کے دوستوں نے مل کر پالا ہے۔ اگرچہ ماں کا کوئی نعم البدل تو نہیں ہوتا لیکن امی کے دوست میرا خاندان بن گیا اور

ان کے بچے میرے کزنز۔‘مراد کے بقول پروین قادر آغا نہ صرف ان کی والدہ کی ہم نام تھیں بلکہ انھوں نے ان سے ماں جیسی محبت بھی کی۔پروین شاکر کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے

انھیں اسلام آباد میں مختلف جگہ پر سرکاری گھر ملے وفات سے قبل جو آخری مکان انھیں ملا وہ جی ٹین ٹو میں تھا۔مراد کا کہنا تھا ’جب امی کی وفات ہوئی تو حکومت نے یہ مکان میرے پاس رہنے دیا۔

جب تک کہ میں گریجویشن کر لوں، تو یہ بڑا سہارا بنا۔‘مراد کی تعلیم کا بیڑہ بھی حکومت وقت نے اپنے ذمے اٹھا لیا۔ مراد نے بتایا ’اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے میرے لیے ماہانہ 60000 روپے

وظیفہ مقرر کر دیا جو میرے لیے بہت مددگار ثابت ہوا اور میں تعلیم مکمل کر سکا۔‘مراد کہتے ہیں کہ چونکہ پروین شاکر نے اپنی زیادہ تر زندگی اسلام آباد میں گزاری اس لیے بڑوں نے اسلام آباد میں تدفین کا فیصلہ کیا جس میں وہ شامل نہیں تھے۔‘

مراد علی بتاتے ہیں ’امی کی تدفین اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں کی گئی کیونکہ انھوں نے ساری زندگی یہاں پہ گزاری، ان کے دوست اور ملنے والے زیادہ تر یہاں پر تھے۔‘مراد بتاتے ہیں ’جنازے میں کافی لوگ آئے تھے، بیوروکریٹ، شاعر، ان

کے آفس کے لوگ، میری نانی اور خالہ بھی کراچی سے آئی تھیں اور اس دن میرے والد صاحب بھی آگئے تھے۔‘پروین شاکر کی وفات کے بعد ان کے دوستوں نے مل کر پروین شاکرٹرسٹ کی بنیاد رکھی۔

اس ٹرسٹ کی چیئرپرسن پروین قادر آغا ہیں۔ جو پروین شاکرکی دفتر میں سینیئر تھیں اور ان کی اچھی دوست بھی تھیں۔پروین قادر آغا نے بتایا کے ٹرسٹ کا مقصد مراد کی پرورش تھا

اور جب وہ بڑا ہو گیا تو اب اس ٹرسٹ کا مقصد پروین شاکر کی شاعری کو اجاگر کرنا ہے۔پروین شاکر کی موت کے بعد جو ان کا مجموعہ کلام ‘کف آئینہ’ شائع ہوا اس میں ایک نظم نما غزل نظر آتی ہے

جو ان کے بیٹے مراد کے لیے لکھی ہوئی جان پڑتی ہے۔ اس کے دو اشعار ان کے رشتے کے اظہار کے لیے کافی ہیں۔خدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں۔۔۔دیار وقت سے تو شادماں گزرتا رہے۔۔۔میں تجھ کو دیکھ نہ پاؤں تو کچھ ملال نہیں۔۔۔کہیں بھی ہو، تو ستارہ نشاں گزرتا رہے۔۔۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

طبیعت خراب تھی مگر عبادت نہیں چھوڑی ۔۔ شیخ الحدیث کے جنازے پر لوگوں کی آنکھوں سے آنسو کیوں نہیں رک رہے تھے؟

گھر کے نوکروں اور پڑوسیوں کو بھی میچ کا ٹکٹ دلایا تھا۔۔ میچ دیکھنے یورپ سے آئی لڑکی کا کتنا نقصان ہوگیا؟ پاکستانی مداح بتاتے ہوئے رو پڑی