پیار کے رنگ !
ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رھا تھا ، اس دوران وہ درخت کے نیچے بیٹھا اللہ پاک سے مخاطب تھا ،، اللہ پاک سنا ھے تیری بیوی بھی نہیں ، تیرے بچے بھی نہیں ، بھلا تیرا خیال کون رکھتا ھو گا
؟یا اللہ اگر تو میرے پاس ھوتا تو میں تجھے اپنی بھیڑوں کا دودھ پلاتا ، تیرے بالوں کو تیل لگاتا ان کو سنوارتا، وغیرہ وغیرہ ، پاس سے گزرتے ھوئے موسی علیہ السلام نے جو یہ سب کچھ سنا تو پکار اٹھے کہ تُو تو مرتد ھو گیا
، یہ سننا تھا کہ چرواہا چیخ مار کر جنگل کی طرف بھاگ نکلا کہ میں تو رب العزت کو خوش کرنے کی کوشش کر رھا تھا ، میری نادانی نے اس کو ناراض کر دیا ،مولانا روم لکھتے ھیں کہ اسی دوران موسی علیہ السلام پر وحی نازل ھوئی کہ ” موسی تو نے
میرے بندے کو مجھ سے دور کر دیا ، تمہیں معلوم نہیں کہ ھم اس کی ان سادی سادی باتوں سے کتنے خوش ھو رھے تھے ، اے موسی ھم نے تمہیں بندے رب سے جوڑنے کے لئے بھیجا تھا توڑنے کے لئے نہیں بھیجا تھا،،وحي آمد سوي موسي از خدا بنده ما را ز ما کردي
جداتو براي وصل کردن آمدي نہ براي فصل کردن آمدي ،،اے موسی ھم تو بندے کو بندے سے جدا کرنے والی طلاق کو بھی حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسند کرتے ھیں پھر اللہ سے جدا کرنے والے کلمات کو کیسے پسند کریں گ
گے؟ھندی ھند کی زبان میں میری مدح کرتے اور سندھی سندھ کی زبان میں میری تعریف کرتے ھیں ، جس طرح ھر قوم کی اپنی اپنی اصطلاحات ھیں اسی
طرح ھر فرد اپنی اپنی عقل سے ھماری مدح کرتا ھے ،، ھر شخص کو میں نے اس کی طبیعت کے مطابق عقل دی ھے،جس کے تحت وہ اپنی اصطلاح میں ھماری مدح کرتا ھے ، اس چرواھے کی باتیں میرے نزدیک میری مدح تھیں
جبکہ تمہارے نزدیک میری توھین تھیں ،،میرے نزدیک وہ شھد سے زیادہ میٹھی اور تیرے نزدیک وہ زھر سے کڑوی تھیں ،میں پاکی و ناپاکی سب سے پاک ھوں ( کوئی ناپاکی بیان کرنے والا بھی ھم میں ناپاکی ثابت نہیں کر سکتا اور کوئی پاکی بیان کرنے والا بھی ھماری پاکی کا حق ادا نہیں کر سکتا)