قائد اعظم محمد علی جناح کی نماز جنازہ کےدوران ایک شخص الگ تھلگ کھڑا تھا یہ کون تھا اوراس نے نماز جنازہ پڑھنےسے بھی صاف انکار کیوں کیاتھا؟ جانئے
نامور کالم نگار فاروق عالم انصاری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔جب انہیں ملکی صدارت کیلئے نامزد کیا گیا تو احراری صدر کا شور مچ گیا۔ یہ کچھ جھوٹ بھی نہیں تھا۔ اسکی اک اہم وجہ انکے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ تھا۔ اک مرزائی سے ختم نبوت
کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے ان کا جھگڑا ہو گیا۔ اس بدبخت نے تیز دھار چیز سے انکے شانے پر وار کر دیا۔ اللہ نے انہیں بچا لیا۔ جناب رفیق تارڑ اپنے شانہ کے اس زخم کے نشان کو توشہ آخرت سمجھتے ہیں۔
یہی تمغہ ختم نبوت ہے ۔پھر حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس تمغہ ختم نبوت کی تصدیق بھی کر دی ۔ یہ بتاتے ہوئے رفیق تارڑ اک عجب کیف و سرمستی کے عالم میں دکھائی دیتے ہیں
کہ حضرت شاہ جی نے اس زخم کو چوما تھا۔ حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری اسے کیوں نہ چومتے ۔ کچھ زخموں سے گلاب موتیے کی خوشبو آتی رہتی ہے ۔ اپنی زندگی میں
جناب رفیق تارڑ نے عاشق رسولؐـ ہونے کے کئی ثبوت بہم پہنچائے ۔مرزائی سر ظفر اللہ خاں تاریخ پاکستان کا اک عجب کردار ہے ۔ وہ حضرت قائد اعظم کے جنازہ میں شریک نہیں ہوا تھا۔
نماز جنازہ پڑھنے والوں سے وہیں ذرا پرے ہو کر کھڑا رہا۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم کہ کہنے لگا: آپ مجھے ایک مسلم ریاست کا غیر مسلم وزیر خارجہ سمجھ لیں یا پھر کسی غیر مسلم ریاست کا مسلم وزیر خارجہ ۔بعد میں وہ عالمی عدالت کا
جج بھی مقرر ہوا ۔ اسکے انتقال پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی زیر صدارت جج صاحبان کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے اجلاس میں آنجہانی کیلئے فل کورٹ ریفرنس کا معاملہ زیر غور آیا۔ جناب رفیق تارڑ اس زمانہ میں لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے
۔ اس موقعہ پر انہوں نے باقی ججوں کو یہ یاد دلایا کہ اس نے حضرت قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ اسلئے ایک اسلامی ملک میں اس کا فل کورٹ ریفرنس بے حمیتی ہوگا۔ جب دوسری جانب سے فل کورٹ ریفرنس کیلئے اصرار بڑھا تو اس مہذب انسان کے سراپا سے اک اکھڑ جاٹ برآمد ہو گیا۔ تارڑ صاحب نے للکار کر کہا کہ اگر کسی میں ہمت ہے تو وہ یہ ریفرنس کر کے دکھائے ۔
پھر کیا ہونا تھا؟سبھی اس غیرت ایمانی کے بپھرے ہوئے طوفان کے آگے پسپا ہو گئے اور ریفرنس نہ ہو سکا۔ کچھ ماہ گزرتے ہیں‘کالم نگار جی او آر ون لاہور ان سے انکی اہلیہ کی تعزیت کیلئے پہنچا ہوا تھا۔ وہیں ختم نبوت کا ذکر چھڑ گیا۔ پھر سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور ایک بدبخت مرزائی کے ہاتھوں انہیں آنے والے زخم کا ذکر آنا لازمی تھا۔ کالم نگار نے تارڑ صاحب سے پوچھا۔ کبھی خواب میں حضورپاکؐ کی زیارت ہوئی؟
بتانے لگے ۔ نہیں۔ کبھی نہیں۔ پھر انہوں نے اپنی بات یوں مکمل کی ۔ اس معاملہ میں جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے ۔ اسکی معافی کبھی نہیں ہوگی۔ کالم نگار کو ان کا پوتا بلال فاروق ایم پی اے انکے بیڈ روم میں لے گیا تھاکہ آپ سے مل کر انکی طبیعت بہل جاتی ہے ۔پھر لمبی نشست رہی ۔دیر تک گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔