رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا کی ہمہ ہمی، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے
تواس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، ارشاد باری ہے ”انَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ویُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ“ (بقرہ، آیت ۲۲۲) ”بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔“
غلطی اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے، جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کااعتراف کرلیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے،
ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے موٴمن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیساکہ وہ سوار جس کی سواری کھانے، پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھوجائے اور وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے سوجائے، جب آنکھ کھلے تودیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے ۔ (صحیح مسلم)
ظاہر ہے کہ اگر کوئی سوار تنہا جنگل میں سفر کررہا ہو اور راستہ بھرکے لیے کھانے، پینے کا سامان بھی اس جانور پر لدا ہوا ہو اور پھر وہ سفر کے دوران کسی دن دوپہر میں کہیں سایہ دیکھ کر اترا اور آرام کی نیت سے سوگیا، جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اس کی سواری کا جانور اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ غائب ہے تواسے بہت سخت تکلیف ہوگی، اور پریشانی کی شدت سے دوچار ہوکر موت کی تمنا کرے گا لیکن جب کچھ دیر کے بعداسے سواری اوراس کے ساتھ تمام سامان مل جائے
تواس کی خوشی کی انتہاء نہیں رہے گی اور وہ رقص و سرور کے عالم کیف میں غرق ہوجائے گا، اسی طرح جب جرم و گناہ کے بعد کوئی بندہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور سچے دل سے توبہ کے ذریعہ اللہ کا قرب چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو
اس مایوس شخص سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے اور وہ اپنے خطاکار بندہ کو اپنا محبوب بنالیتا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں گراہوا۔ (مشکوٰة ، ص:۳۳۳)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک ندامت کا آنسو شہیدوں کے خون کی مانند اہمیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے مولانا رومی فرماتے ہیں:قطرئہ اشکِ ندامت در سجودہمسری خون شہادت می نمود
(ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتی ہے)