خالی پیٹ 4دانے اس چیزکے کھالواتنا خ ون بڑھے گاکہ چہرہ لال وگلابی سُرخ نظر آئے گا
جسم میں آئرن جیسے جز کی کمی اینیمیا (خون کی کمی) کا شکار بنانے کے لیے کافی ثابت ہوتی ہے اور روز مرہ کی زندگی میں اس کا امکان کافی زیادہ ہوتا ہے۔آئرن کی کمی کے دوران جسم مناسب مقدار میں ہیموگلوبن بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ہیموگلوبن خون کے سرخ خلیات کا وہ پروٹین ہے جو آکسیجن جسم کے دیگر حصوں میں پہنچاتا ہےاور اس کی عدم موجودگی سے مسلز اور ٹشوز اپنے افعال سرانجام نہیں دے پاتے۔
یہاں آپ جسم میں آئرن کی کمی کی علامات جان سکیں گے، جو زیادہ سنگین عارضے سے بچانے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ غیرمعمولی تھکاوٹ جسمانی تھکاوٹ آئرن کی کمی کی سب سے عام علامت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آئرن کی کمی سے ہیموگلوبن بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے جو آکسیجن پھیپھڑوں سے جسم کے دیگر حصوں تک پہنچاتا ہے۔ جب اس پروٹین کی کمی ہوتی ہےتو مسلز اور ٹشوز کم آکسیجن کی وجہ سے تھکاوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں، تاہم روزمرہ کے کاموں کے دوران بھی تھکاوٹ ہوتی ہے تو اکثر لوگ آئرن کی کمی پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں، تاہم ایسے افراد کو کمزوری کے ساتھ جسمانی توانائی میں کمی، توجہ مرکوز کرنے میں مشکل اور کام کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
جلد زرد ہوجانا خون کے سرخ خلیات میں موجود ہیموگلوبن جلد کو صحت مند سرخی مائل رنگت فراہم کرتا ہے، آئرن کی کمی کے نتیجے میں ہیموگلوبن کی مقدار کم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں جلد زرد ہوجاتی ہے۔سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، خصوصاً جسمانی سرگرمیوں کے دوران بھی آئرن کی کمی کی ایک اور علامت ہے۔ اس کی وجہ بھی ہیموگلوبن کی مقدار میں خون کے سرخ خلیات کی کمی ہونا ہے، جب جسم کو آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اس کی تلافی کی کوشش کرتا ہے تاکہ اعضاء اپنا کام کرسکیں، جس سے سانس گھٹنے کا احساس ہوتا ہے۔ سر چکرانا اور سردرد آئرن کی کمی کے نتیجے میں سردرد یا آدھے سر کا درد عام ہوجاتا ہے،
جس کی وجہ دماغ تک آکسیجن مناسب مقدار میں نہ پہنچنا بنتا ہے، یہ دباﺅ سردرد یا آدھے سر کے درد کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح آئرن کی کمی کے شکار افراد کو سر ہلکا ہونے یا چکرانے کا احساس بھی ہوسکتا ہے، جس کی وجہ ہیموگلوبن کی سطح میں کمی ہوتی ہے۔ دل کی دھڑکن متاثر ہونا دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی بھی آئرن کی کمی کی ایک اور علامت ہوسکتی ہے، ہیموگلوبن کی سطح میں کمی کے نتیجے میں دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس سے دل کی دھڑکن غیر معمولی ہوجاتی ہے یا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل بہت تیز دھڑک رہا ہے۔ سنگین معاملات میں ہارٹ فیلیئر کا بھی خطرہ پیدا ہوتا ہے۔بالوں اور جلد کو نقصان پہنچنا جب جلد اور بالوں کو آئرن کی کمی کا سامنا ہو تو
وہ خشک اور زیادہ نازک ہوجاتے ہیں، بلکہ گنج پن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے یا بال تیزی سے گرنے لگتے ہیں۔ آئرن کی کمی سے پروٹین کی ایک قسم ferritin کی کمی ہوتی ہے۔ آکسیجن کی کمی کے نتیجے میں جسم جلد اور بالوں کی بجائے اہم اعضاءکو ترجیح دیتا ہے۔ منہ اور زبان کی سوجن آئرن کی کمی کو جاننے میں زبان بھی مدد دے سکتی ہے، اگر وہ سوجن، ورم یا اس کی رنگت متاثر ہو تو یہ بھی آئرن کی کمی کی نشانی ہے۔ ہماری جسم میں ایک پروٹین myoglobin ہوتا ہے جو زبان کے مسل ٹشو میں پایا جاتا ہے،آئرن کی کمی سے اس کی سطح بھی متاثر ہوتی ہے جس سے زبان سوجن اور ورم کا شکار ہوجاتی ہے۔ ناخن بھربھرے ہوجانا ناخن کا بھربھرا ہوجانا آئرن کی کمی کی ایک ایسی علامت ہے
جو زیادہ عام نہیں بلکہ یہ اینیمیا کی سطح پر نمودار ہوتی ہے۔ اس اسٹیج پر ناخن غیرمعمولی حد تک پتلے ہوجاتے ہیں اور ان کی ساخت بھی بدل جاتی ہے۔ معدے میں درد اور پیشاب میں خون آنا آئرن کی کمی کے نتیجے میں خون کے سرخ خلیات کے دوران خون میں ٹکڑے ہوتے ہیںاور ان سے آئرن خارج ہوکر پیشاب کے راستے نکلتا ہے۔ ایسا ہونے پر معدے میں درد بھی ہوتا ہے۔ سوئیاں چبھنے کا احساس ایسے افراد کو ریسٹ لیس لیگ سینڈروم کا سامنا ہوتا ہے، یہ اعصابی نظام کا ایسا عارضہ ہے جس میں ایسا احساس ہوتا ہے کہ ٹانگوں میں سوئیاں چبھ رہی ہیں جبکہ لاشعوری طور پر پیروں کو حرکت دینے کی خواہش ہوتی ہے، اس سے نیند بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہاتھوں اور پیروں میں ٹھنڈا کا احساس موسم چاہے
جیسا بھی ہو مگر ہاتھ اور پیر ٹھنڈے ہورہے ہوں تو یہ واضح طور پر انیمیا یا آئرن کی کمی کی علامت ہے۔عجیب چیزوں کی طلب آئرن کی کمی کی ایک عجیب ترین علامت یہ ہوتی ہےجب عجیب چیزوں کو کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے جیسے لکڑی، مٹی یا برف وغیرہ۔جلد انفیکشن کا شکار ہوناآئرن مضبوط مدافعتی نظام کے لیے ضروری ہے، تو اس کی کمی کے نتیجے
میں انفیکشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، خون کے سرخ خلیات انفیکشن سے لڑنے میں مدد دیتے ہیں، جبکہ خون کے سفید خلیات مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں، جب آئرن کی کمی ہوتی ہے تو خون کے سفید خلیات مناسب مقدار میں بن نہیں پاتے اور نہ ہی وہ پہلے جیسے مضبوط ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں انفیکشن کا شکار ہونا آسان ہوجاتا ہے۔