حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر خوش رہنا ہے تو دو چیزیں بھول جاؤ….!
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر خوش رہنا ہے تو دو چیزیں بھول جاؤ….!
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر خوش رہنا ہے تو دو چیزیں بھول جاؤ….! وہ برا سلوک جو کسی نے تمہارے ساتھ کیا اور وہ اچھا عمل جو تم نے کسی کے ساتھ کیا۔ دوست وہ ہے جو ظ-ل-م اور زیادتی کرنے سے منع کرے اور احسان اور نیکی کرنے پر معین و مددگار ہو۔ لوگوں کے غلام مت بنو جب اللہ نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ خلوص اور عزت بہت مہنگے تحفے ہیں، اس لئے
ہر کسی سے ان کی امید نہ رکھو کیونکہ بہت کم لوگ دل کے امیر ہوتے ہیں۔ جو آدمی اپنوں کو حقیر سمجھتا ہے د-ش-م-ن اسے ک-چ-ل دیتے ہیں۔ ہر شخص کا غم اس کی ہمت کے مطابق ہوتا ہے۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں کہ وہ جسے توڑے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے وہ جوڑے اسے سارے توڑنے والے مل کر توڑ نہیں سکتے
۔ کچھجب ہاتھوں میں دامن مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہو وہ امتی ہونے پہ ناز کرتے ہیں۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، د-ج-ا-ل- کے ساتھ پانی ہو گا اور آ-گ بھی۔ پس جسے لوگ دیکھیں گے کہ یہ آ-گ ہے وہ حقیقت میں ٹھنڈا پانی ہو گا اور جسے لوگ ٹھنڈا پانی
سمجھیں گے وہ جلانے والی آ-گ ہوگی۔ پس جو کوئی تم میں سے اس کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ اُس کی آ-گ میں چلا جائے، کیونکہ وہ میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہوگا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا گذشتہ زمانوں کے کسی آدمی کے پاس م-ل-ک ا-ل-م-و-ت اُس کی روح ق-ب-ض کرنے آیا، تو اس سے پوچھا کیا تجھے اپنی کوئی نیکی معلوم ہے؟
وہ کہنے لگا کہ میرے علم میں تو کوئی نہیں۔ اس سے کہا گیا ذرا اور توجہ سے دیکھ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے علم تو کوئی چیز نہیں سوائے اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کرتا تھا تو مالدار کو مہلت دے دیا کرتا اور غریب آدمی سے درگزر کرتا رہتا تھا۔ اِس نیک عمل کے سبب اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ اُنہوں نے یہ بھی روایت کی ہے کہ
میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ایک آدمی کی جب م-وت قریب آئی اور اُسے زندگی سے مایوسی ہوگئی تو اس نے اپنے اہل و عیال کو وصیت کی، جب میں مر جاؤں تو میرے لئے بہت سا ایندھن لے کر اس میں آ-گ لگا دینا۔ جب وہ میرے گ-و-ش-ت کے ساتھ ہ-ڈ-ی-وں کو بھی جلا دے تو انہیں جمع کرکے پیس لینا اور جس روز تیز ہوا چلے اس روز وہ راکھ کسی دریا میں ڈال دینا۔ اس کے عزیز و اقارب نے ایسا ہی کیا۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے تمام اجزا اکٹھے کر کے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا؟ جواب دیا: تیرے ڈر سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ حضرت عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے اور وہ آدمی م-ر-دے د-ف-ن-انے کا کام کرتا تھا۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین