چند حیران کن تاریخی واقعات
چند حیران کن تاریخی واقعات
نامور مضمون نگار عقیل عباس جعفری بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔ 24 جون 1953 کو روزنامہ امروز لاہور نے مشہور اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں اور ٹیسٹ کرکٹر نذر محمد کے بارے میں ایک خبر شائع کی جس کے مطابق
نور جہاں نذر محمد سے ملنے کے لیے کسی مقام پر گئی ہوئی تھیں کہ اچانک وہاں ان کے شوہر شوکت حسین رضوی پہنچ گئے۔نذر محمد نے شوکت حسین رضوی کو دیکھ کر بالائی منزل سے چھلانگ لگا دی جس کی وجہ سے ان کا بازو ٹوٹ گیا اور وہ کرکٹ کھیلنے سے ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔ملکہ ترنم نور جہاں اور ٹیسٹ کرکٹر نذر محمد کا رومان پاکستان کی فلمی تاریخ کا ایک دلچسپ مگر افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس رومان کا انجام ایک حادثے پر ہوا جس میں نذر محمد اپنا بازو تڑوا کر کرکٹ کی دنیا سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گئے۔نذر محمد مشہور موسیقار فیروز نظامی کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ گانے سے دلچسپی رکھتے تھے اور
جن لوگوں نے انھیں گاتے سنا، ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت سریلی آ واز کے مالک تھے۔نور جہاں اور نذر محمد کا یہ رومان کب اور کہاں شروع ہوا، اس سلسلے میں نور جہاں، نذر محمد اور شوکت حسین رضوی کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔نور جہاں ان دنوں گیارہ، بارہ سال کی تھی جب نذر محمد سے ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ یہ بمبئی کی بات ہے، جب نور جہاں نذر کے بڑے بھائی فیروز نظامی کے گھر ان سے فن سیکھنے کے لیے جایا کرتی تھیں۔ نذر بھی ان دنوں پنجاب کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بمبئی آیا کرتے تھے۔نور جہاں نے سنہ 1972 میں وسیم اکبر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’شام کا وقت تھا، میں گا رہی تھی کہ ایک چھریرے بدن
کا نوجوان کمرے میں آ گھسا اور میری طرف ٹکٹکی باندھ کر تکنے لگا۔ پہلے تو میں نے اس کی طرف سے توجہ نہ کی لیکن جب اس نے دیکھنا بند ہی نہ کیا تو میں نے فیروز صاحب سے کہا کہ یہ لڑکا کون ہے اور میرا منہ کیوں تک رہا ہے۔‘’مجھے غصے میں دیکھ کر نذر کا رنگ فق ہو گیا لیکن فیروز صاحب نے اسے کچھ نہیں کہا، بولے کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے، بہت اچھی کرکٹ کھیلتا ہے اور گاتا بھی بہت اچھا ہے۔ ریڈیو پر کبھی اس کی غزلیں نہیں سنیں، کتنے دن اس کو ہو گئے ہیں، لاہور سے بمبئی آئے ہوئے، اب میرے پاس آیا ہے۔‘نور جہاں نے نذر سے اصرار کیا کہ وہ کوئی غزل سنائیں۔ پہلے تو نذر نے کچھ ہچکچاہٹ محسوس کی لیکن پھر سہگل کی گائی ہوئی ایک غزل سنائی۔ اگرچہ نذر کا انداز کلاسیکل تھا لیکن آواز میں انتہا کا سوز تھا۔نور جہاں نے بتایا کہ انھوں نے اتنی اچھی آواز بہت کم مرد گلوکاروں کی سنی تھی، ان کی آواز میں مردانگی پائی جاتی تھی۔رفتہ رفتہ نور جہاں اور نذر محمد میں محبت کا رشتہ استوار ہوتا چلا گیا۔ دونوں نے کبھی نہ جدا ہونے کی قسمیں کھائیں، ایک دوسرے سے وعدے لیے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملتے رہے، دو تین سال اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن نذر نے نور جہاں کو بتایا کہ
اس کی اپنے رشتے داروں میں منگنی ہو گئی ہے اور وہ اپنے ماں باپ کی بات نہیں ٹال سکتے۔نذر نے نور جہاں کو ایک طویل خط لکھا جس میں انھوں نے اس منگنی کا سبب بیان کیا۔ نذر محمد نے لکھا کہ ’بے بی شاید تم یہ سمجھتی ہو کہ میں نے اپنی مرضی سے اس لڑکی کے ساتھ منگنی کی ہے اور تمہارے ساتھ دھوکا کیا۔ تمہارا اگر یہی خیال ہے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ میں خدا کی قسم بے وفا نہیں ہوں۔ میں آج بھی صرف تم سے محبت کرتا ہوں اور ساری زندگی تم سے ہی محبت کرتا رہوں گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اس محبت کو کم نہیں کر سکتی۔‘میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ منگنی ٹوٹ جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ جس لڑکی سے میری منگنی طے ہوئی ہے، اس کی داستان اتنی درد ناک ہے کہ وہ اپنی منگنی ٹوٹنے کا سانحہ برداشت نہیں کر سکے گی اور اس کا مستقبل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریک ہو جائے گا۔ وہ اس دنیا میں بالکل تنہا ہے۔ وہ بہت چھوٹی تھی جب اس کے ماں باپ چل بسے تھے نہ کوئی اس کا بھائی ہے اورنہ ہی کوئی بہن اور وہ ہماری رشتہ دار بھی ہے۔‘اس لیے میرے ماں باپ اور بہنیں کسی قیمت پر بھی یہ رشتہ توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ میں تم سے آج بھی پہلی سی محبت کرتا ہوں اور میری محبت میں مر کر بھی فرق نہیں آئے گا۔ اگر میں مر بھی گیا تو میری روح بھی تم سے پیار کرتی رہے گی۔‘یوں نور جہاں اور نذر کی محبت کا یہ پہلا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔اسی زمانے میں نور جہاں کی زندگی میں
شوکت حسین رضوی داخل ہوئے اور دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کی شادی کے آٹھ دس دن بعد نذر محمد کی بھی شادی ہو گئی۔قیام پاکستان کے بعد نور جہاں اور شوکت حسین رضوی پاکستان آ گئے جہاں انھوں نے لاہور میں شاہ نور سٹوڈیوز الاٹ کروایا اور فلمیں بنانے کے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔ شوکت حسین رضوی دل پھینک آدمی تھے۔ نور جہاں نے انھیں کئی مرتبہ اداکاراؤں کے ساتھ ناگفتہ بہ حالت میں پکڑا۔نور جہاں نے انھیں جواب دینے کے لیے نذر محمد سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے کا فیصلہ کیا اور انھیں تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ نذر محمد ان دنوں ٹیسٹ کرکٹ شروع کر چکے تھے اور لکھنؤ ٹیسٹ میں انڈیا کے خلاف ٹیسٹ سنچری سکور کرنے کی وجہ سے سپر سٹار بن چکے تھے۔نور جہاں بتاتی ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ میں نذر کو ایک دوست اور بھائی سمجھ کر ملوں گی تاکہ شوکت کو ہماری ملاقاتوں کا جب پتا چلے تو کچھ احساس ہو اور اپنی غلط عادات کو ترک کر دے۔ شوکت کو میرے بارے میں شروع سے ہی شک تھا کہ میں نذر سے ملتی ہوں لیکن میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتی ہوں، میں نے شادی کے بعد نذر سے ملنا جلنا بالکل بند کر دیا تھا، میں نذر سے دوبارہ اس وقت ملی جب مجھے یقین ہو گیا کہ شوکت یاسمین کو نہیں چھوڑے گا۔‘یوں رفتہ رفتہ نور جہاں اور نذر محمد کی ملاقاتوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔اب آگے کا قصہ شوکت حسین رضوی
کی زبانی سنیے جو انھوں نے مشہور صحافی منیر احمد منیر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بیان کیا۔شوکت حسین رضوی نے بتایا کہ ’نذر کے ساتھ نور جہاں کا معاشقہ اتنا بڑھا اور بات اتنی پھیلی کہ میرے ڈرائیور نے اور لوگوں نے مجھے کہنا شروع کر دیا۔ میرے ڈرائیور امیر حسن نے بتایا کہ صاحب بہت بدنامی ہو رہی ہے۔‘ایک دن امیر حسن نے شوکت صاحب کو بتایا کہ وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے نور جہاں کو اسلامیہ پارک چھوڑ کر آئے ہیں۔شوکت صاحب کہتے ہیں کہ ’وہاں کوئی بابا تھا۔ دوا دارو کا اس نے پاکھنڈ بنا رکھا تھا۔ اس کے ہاں یہ دونوں ملتے تھے، میں نے دو گاڑیوں میں اپنے دوست احباب بٹھائے اور فوراً اسلامیہ پارک کی طرف بھاگا۔ ہم نے بابا کے مکان کی ناکہ بندی کرلی۔ میں بابا کے پاس گیا اور پوچھا ’یہاں نور جہاں آئی ہے؟اس نے جواب دیا، کیہڑی نور جہاں؟ میں نے کہا (مغلطات دے کر) تو نور جہاں کو نہیں جانتا؟ مجھے سب پتا چل چکا ہے۔ اس کے مکان میں ایک سیڑھی اوپر کو جاتی تھی۔ میں اوپر چڑھنا شروع ہوا۔ بڈھا مجھے پکڑ تو نہیں سکتا تھا۔ مجھ میں طاقت بہت تھی۔ اوپر سے غصہ، بڈھے نے شور مچانا شروع کر دیا تاکہ نور جہاں اور نذر سن کر اِدھر اُدھر ہو جائیں۔ اتنے میں، میں اوپر پہنچ چکا تھا۔‘وہاں برآمدے میں پلنگ پر نذر اور نور جہاں دونوں اکٹھے لیٹے ہوئے تھے۔ اس وقت میرے پاس اگر کوئی ہتھیار ہوتا تو میں نور جہاں اور نذر دونوں کو زندگی سے
محروم کر دیتا ۔ نذر گھبرا کے اٹھا اور 25 فٹ کی بلندی سے نیچے کود گیا۔ وہ نیچے گرا تو اس کا بازو ٹوٹ گیا۔‘نور جہاں نے نیچے اتر کر رونا دھونا شروع کر دیا اور چلانے لگی کہ ’یہ میرا شوہر ہے، مجھ پر چلاتا ہے، یہ آوارہ اور بدچلن ہے۔ مجھ سے کمائی کرواتا ہے، خود لڑکیاں لے آتا ہے، فلان ہے، ڈھمکان ہے، میں نذر کو پیار کرتی ہوں۔ گھنٹہ دو گھنٹہ اس نے ادھم مچائے رکھا تو محلے والے آ گئے، کوئی دو سو آدمی وہاں جمع ہوگئے۔ میرے ایک آدھ ملنے والے بھی آ گئے۔‘کریسنٹ فلمز کے میاں احسان بھی آ گئے، وہ ان کو اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ نذر کو بھی جانتے تھے، نذر وہاں نیم بے ہوش پڑا تھا۔ بڑا اچھا پلیئر تھا۔ اپنی موت آپ مر گیا۔ بازو ٹوٹنے کے بعد یہ اس سے ملی کہ نہیں ملی، اس کا مجھے کوئی پتا نہیں، پھر تو وہ بے کار ہی ہو گیا۔شوکت کے بقول نور جہاں کا مؤقف یہ تھا کہ ’شوہر کو راستے پر لانے کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ شوہر اگر ہیرا منڈی جاتا ہے تو تم ہیرا منڈی جاؤ گی؟ اس نے میرے ساتھ کیا نہیں کیا؟ اب کہتی ہے کہ بیان دوں گی۔ شاید یہی کہے کہ مجھے لوگوں کے سامنے پیش کرتا تھا۔‘نذر محمد نور جہاں سے تعلق کے بارے میں تمام عمر خاموش رہے تاہم عمر کے آخری حصے میں انھوں نے ایک صحافی ابن یونس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس واقعے کی کچھ
تفصیلات بیان کیں۔ یہ انٹرویو طفیل اختر کی کتاب ’نور جہاں، فتور جہاں‘ میں شامل ہے۔نذر محمد نے بتایا کہ ’نور جہاں سے میری ملاقات میرے بڑے بھائی فیروز نظامی کی وجہ سے ہوئی۔ وہ بہت بڑے اور مشہور میوزک ڈائریکٹر تھے اور اکثر نور جہاں کو گانے کی مشق کروایا کرتے تھے۔‘نور جہاں کو یہ تو معلوم تھا کہ میں ایک مشہور کرکٹر ہوں۔ قومی کرکٹ ٹیم کا رکن ہوں لیکن اسے نہ تو کرکٹ سے کسی قسم کا شغف تھا اور نہ ہی وہ کرکٹ کی وجہ سے مجھ پر فریفتہ ہوئی بلکہ اس کی مجھ پر مر مٹنے کی وجہ میری مردانہ وجاہت، پراثر شخصیت کے علاوہ میرا گانے کو سمجھنا، راگ راگنیوں کا معلوم ہونا اور میری اچھی آواز ہونا تھی۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ میں بہت ہی اچھا گاتا ہوں اور میری نور جہاں سے وابستگی کی بڑی وجہ بھی یہی تھی۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ گھنٹوں میرے پاس بیٹھ کر گایا کرتی اور میں سنا کرتا۔ جس طرح سے میں نے نور جہاں کو گاتے سنا، کسی اور نے نہ سنا ہو گا۔ وہ میرے لیے گاتی تھی۔ ان دنوں نور جہاں شوکت حسین رضوی کی بیوی تھی لیکن میں اسے شوکت رضوی کے لیے بیوی سے زیادہ سونے کی چڑیا کہوں گا۔ شوکت نے اسے خوب لوٹا اور اسے خوب تنگ کیا۔‘دراصل شوکت رضوی اس کی قدر نہ کرسکا۔ ان دنوں شوکت اور نور جہاں اسلامیہ پارک پونچھ روڈ پر رہا کرتے تھے۔ وہاں پر ہماری ملاقات چراغ دین کی دکان پر ہوا کرتی تھی اور ہماری
رازداں نور جہاں کی ملازمہ تھی۔ اتفاق سے اس کی جگہ نئی ملازمہ رکھ لی گئی۔ اسی دوران نور جہاں نے مجھے گھر بلایا اور میں اور نور جہاں ایک کمرے میں بیٹھے راز و نیاز کی گفتگو میں مشغول تھے کہ ہمیں پتا ہی نہیں چل سکا کہ کب شوکت رضوی وہاں آ گیا۔ نوکرانی نے اسے بتا دیا کہ ہم دونوں فلاں کمرے میں موجود ہیں۔‘اسی واقعے کی مزید تفصیل نذر محمد اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’وہ کمرے میں چلا آیا۔ میں اسے دیکھ کر بھاگ اٹھا۔ سامنے دیوار تھی۔ میں نے دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف نیچے چھلانگ لگا دی۔ بدقسمتی سے میں بازو کے بل زمین پر آگرا اور میرا بازو ناکارہ ہو گیا۔ میں کھیلنے کے قابل نہ رہا۔ میں نے نور جہاں کے عشق میں بازو کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنا ٹیسٹ کیریئر بھی ختم کرلیا۔‘شوکت رضوی نے اس واقعے کو خاص بہانہ بنا کر نور جہاں کو طلاق دے دی جبکہ شوکت اور یاسمین کا عشق عروج پر تھا اور وہ نور جہاں سے جان چھڑانے کا بہانہ تلاش کر رہا تھا۔‘نورجہاں کی دوسری شادی اعجاز درانی سے سنہ 1959 میں ہوئی جب وہ ’سُپرسٹار‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ’ملکہ ترنم‘ کا لقب پا چکی تھیں طلاق کے بعد نور جہاں نے نذر محمد سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت تک نذر محمد دو بچوں مبشر نذر اور مدثر نذر کے والد بن چکے تھے۔ نور جہاں نے نذر سے کہا کہ ’بچے ہم پال لیں گے، تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔‘نذر کہتے ہیں کہ ’میں نے جواب دیا کہ مبشر اور مدثر بڑے ہو کر مجھ سے پوچھیں گے کہ آپ نے ہماری ماں کو طلاق کیوں دی تھی تو میں کیا جواب دوں گا؟ میں خود پر تو ظلم کرسکتا ہوں مگر اپنے بے قصور بیوی اور بچوں پر نہیں۔ مجھ سے مایوس ہو کر اس نے اعجاز سے شادی کی۔‘اس نے مجھے بتا کر اعجاز سے شادی کی۔ اس کی شادی سے ایک روز پہلے ہم دونوں ساتھ رہے اور دوسرے روز وہ پھر کسی اور کی ہو گئی۔ وہ دھوکا دینے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی تھی اور اس سے لازمی انتقام لیتی لیکن اس نے مجھے کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ مجھ سے واقعی پیار کرتی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ مجھے اس کی دولت سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ شہرت میرا مسئلہ تھا۔‘اُن دنوں نذر محمد کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کے بازو ٹوٹنے کی خبر انگلینڈ میں پہنچی تو اس وقت انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ ہورہا تھا۔دونوں ٹیموں کے کپتانوں نے باہمی مشورے سے نذر کے ٹیسٹ کیریئر کے المناک اختتام پر ایک منٹ کے لیے کھیل روک کر اور خاموشی میں کھڑے رہ کر سوگ منایا۔