14 سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا ۔۔ غریب کسان کی بیٹی نے بڑی پولیس آفیسر بن کر سب کو حیرت میں ڈال دیا
غریب کی بیٹی ہے، یہ بھی ساری زندگی یوں ہی گزار دے گی۔ یہ الفاظ ہیں ایک کامیاب بیٹی کے جو آج ایک بہت بڑی سرکاری افسر ہیں۔ ان کا نام ہے المہ افروز جو بھارتی ریاست اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں کندرکی سے تعلق رکھتی ہیں۔
اور کہتی ہیں کہ میرے والد تو کسان تھے اور گھر کے حالات ایسے تھے کہ 2 وقت کی روٹی پوری ہو جائے تو بڑی بات ہے۔ بس انہی حالات میں ابتدائی تعلیم مکمل کی ۔
اور پھر لوگ لوگوں کو دیکھا کہ وہ میڈیکل اور انجینئر کی تعلیم کیلئے مہنگے مہنگے کوچنگ سینٹر میں جاتے تھے تو میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں بھی وہاں جاؤں اور محنت کر کے کچھ بن جاؤں لیکن یہ خواب کیسے پورے ہوتے کیونکہ جب 14 سال کی تھی تو والد دنیا سے رخصت ہو گئے اور والدہ نے محنت مزدوری کر کے ہمیں پالا اور خون پسینے کی کمائی کیسے یوں کوچنگ سینٹر میں دے دیتی۔
اس کے بعد سوچ کر بی اے کرنے کا ارادہ کیا اس کیلئے دہلی کے سینٹ سٹیفن کالج میں داخلہ لے لیا لیکن گاؤں کے لوگوں سے بولنا شروع کر دیا کہ پڑھ کر کیا کرے گی،اس کی شادی کر دو مگر والدہ نے سب کی باتیں صرف میرے لیے سب کے باتیں سنی مگر مجھ سے کہا کہ محنت کرو اور وہ کام کرو جو تمہارا دل کرتا ہے،میں تمہارے ساتھ ہوں ۔
مزید یہ کہ اب المہ افروز بھارت میں ایک بڑی پولیس آفسر ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ مجھے والدین کی دعاؤں سے اسکالر شپ ملی جس پر میں آکسفورڈ چلی گئی جہاں میں نے ایک علیحدہ ہی دنیا دیکھی مگر وہ مجھے وہ دن ہمیشہ یاد آتے تھے کہ کیسے میری ماں گرمی میں کام کرتی ہے اور مجھے یہاں بھیجا ہے اس نے۔ اس خیال نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا جس پر میں بھارت آئی اور مقابلے کا امتحان دیا جس میں کامیاب ہوئی۔
یاد رہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ جب میں زندگی میں اتنا آگے بڑھ سکتی ہوں تو آپ کیوں نہیں، میں تو ایک کسان کی بیٹی ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے۔ یہاں سب نوجوانوں سے یہ کہنا چاہوں گی کہ محنت تمہیں تمہارا ہر خواب دلوا سکتی ہے۔