دعا کے فضائل
اللہ تعالی کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کیلئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لیے اپنے بندوں کو مانگنے کیلئے ترغیب بھی دلاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا۔[غافر : 60]
اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرما دیا: (دعا ہی عبادت ہے)
ترمذی (3372) ، ابو داود (1479) ، ابن ماجہ (3828) البانی نے اسے “صحیح ترمذی” (2590) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دعا کرنے والا شخص توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید اسماء و صفات میں وحدانیت الہی کا قائل ہو، اس کا دل عقیدہ توحید سے سرشار ہونا چاہیے؛ کیونکہ دعا کی قبولیت کیلئے شرط ہے کہ انسان اپنے رب کا مکمل فرمانبردار ہو اور نافرمانی سے دور ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
ترجمہ: اور جس وقت میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں، ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب بھی وہ دعا کرے، پس وہ میرے احکامات کی تعمیل کریں، اور مجھ پر اعتماد رکھیں، تا کہ وہ رہنمائی پائیں [البقرة : 186]
دعا کے آداب:
دعا میں اخلاص ہونا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
ترجمہ: اور انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا تھا کہ یکسو ہو کر صرف اللہ کی عبادت کریں۔[البينة : 5]
اور یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دعا ہی عبادت ہے، چنانچہ قبولیتِ دعا کیلئے اخلاص شرط ہے۔
اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگا جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِاور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، انہی کے واسطے سے اللہ کو پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں سے متعلق الحاد کا شکار ہیں۔ [الأعراف : 180]
دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی شایانِ شان حمد و ثنا، چنانچہ ترمذی: (3476) میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے، کہ ایک آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھی [پھر اسی دوران دعا کرتے ہوئے]کہا: “یا اللہ! مجھے معاف کر دے، اور مجھ پر رحم فرما” تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے نمازی! تم نے جلد بازی سے کام لیا، جب تم نماز میں [تشہد کیلئے ]بیٹھو، تو پہلے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کرو، پھر مجھ پر درود پڑھو، اور پھر اللہ سے مانگو)
ترمذی (3477)کی ہی ایک اور روایت میں ہے کہ: (جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو [تشہد میں] سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، اور اس کے بعد جو دل میں آئے مانگ لے) راوی کہتے ہیں: “اس کے بعد ایک اور شخص نے نماز پڑھی، تو اس نے اللہ کی حمد بیان کی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اے نمازی! اب دعا مانگ لو، تمہاری دعا قبول ہوگی)” اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے “صحیح ترمذی” (2765 ، 2767) میں صحیح کہا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (ہر دعا شرفِ قبولیت سے محروم رہتی ہے، جب تک اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ پڑھا جائے)
طبرانی نے “الأوسط” (1/220) میں روایت کیا ہے، اور شیخ البانی نے اسے “صحیح الجامع” (4399) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
قبلہ رخ ہو کر دعا کرنا، چنانچہ مسلم: (1763) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی تعداد کو دیکھا کہ ان کی تعداد ایک ہزار ہے، اور آپ کے جانثار صحابہ کرام کی تعداد 319 ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعا مانگنا شروع کی آپ نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور اپنے رب سے گڑگڑا کر مانگنے لگے: (اَللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي ، اَللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي ، اَللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ لا تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ)[یعنی: یا اللہ! مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا فرما، یا اللہ! مجھے دیا ہوا عہد و پیمان مکمل فرما، یا اللہ اگر تو نے تھوڑے سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دیا تو زمین پر کوئی عبادت کرنے والا نہ ہوگا] آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ہاتھوں کو اٹھائے اپنے رب سے گڑگڑا کر دعائیں کرتے رہے، حتی کہ آپکی چادر کندھوں سے گر گئی۔۔۔ الحدیث