in

حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ؟

حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ؟

حضرت موسیؑ نے اللہ سے سوال کیا :اے خدا تو لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور پھر ماردیتا ہے اس میں کیا حکمت ہے حضرت حق تعالیٰ نے فرمایا چونکہ تیرا سوال انکار اور غفلت پر مبنی ہے اس لئے میں درگزرکرتاہوں ورنہ سزادیتا تو اس لئے معلوم کررہا ہے تا کہ عوام کو ہماری حکمتوں سے آگاہ کردے ورنہ تجھے مخلوق کے پیداکرنے میں ہماری حکمتیں معلوم ہیں ۔

سوال علم کے منافی نہیں ہے کسی چیز کے بارے میں سوال آدھا علم ہوتا ہے۔اگرچہ تو تو اس سے واقف ہے لیکن تو چاہتا ہے کہ عوام بھی آگاہ ہوجائیں۔کسی چیز کا علم ہوجانے کے بعد ہی اس کے بارے میں سوال جواب ہوسکتا ہے۔علم ہی گمراہی اور ہدایت کا سبب بنتا ہے۔جیسا کہ نمی اور تری ہی پھل میں شیرینی کے علاوہ تلخی بھی پیدا کرتی ہے۔ملاقات اور تعارف سے دوستی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے

اور غذا ہی سے بیماری اور صحت دونوں پیدا ہوتی ہیں ۔موسیٰ ؑ تو ناواقفوں کو حکمتوں سے واقف کرنا چاہتا ہے اس لئے تجاہل عارفانہ برت رہا ہے ۔ہم بھی اس کے علم سے انجان بن کر اس کا جواب دیتے ہیں ۔پھر میرے رب کریم نے جواب میں حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ کھیتی بو دو۔جب کھیتی تیار ہوگئی تو انہیں اسے کاٹنے کا حکم دیا۔اور کٹنے کے بعد حضرت موسیٰ ؑ سے پوچھا تو نے خود کھیتی بوئی پھر اسے کیوں کاٹ ڈالا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ:کھیتی کے پکنے پر اس میں دانہ اور بھوسا تھا اور دونوں کو ملا جلا دینا مناسب نہ تھا

حکمت کا تقاضہ یہی تھا کہ دونوں کو الگ الگ کردیاجائے۔حضرت حق تعالیٰ نے پوچھا کہ :یہ عقل تم نے کہاں سے حاصل کی؟حضرت موسیٰ ؑ نے کہا کہ یہ دانش اور عقل آپ کی عطاکردہ ہے تو جواب میں میرے رب کائنات نے فرمایا کہ پھر یہ دانش مجھ میں کیوں نہ ہوگی دیکھو انسانوں کی روحیں دو قسم کی ہیں ایک پاک،ایک ناپاک ۔سب انسانی جسم ایک رتبے کے نہیں ہیں۔

کسی جسم میں موتی جیسی روح ہے اور کسی کنچ کی پوتھ کی طرھ کی ۔ان روحوں کو بھی اسی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کردینا مناسب ہے جس طرح گیہوں کو بھوسے سے تا کہ نیک روحیں جنت کو چلی جائیں اور بری دوزخک کو ۔پہلی حکمت تو مارنے کی تھی اور پیدا کرننے کی حکمت یہ ہے کہ ہماری صفات کا اظہار ہوجائے۔حدیث قدسی ہے کہ :میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا فرمایا۔

انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے۔یہ شرف و فضیلت اور یہ حیثیت ہر انسان کو حاصل ہے، چاہے مومن ہو یا کافر کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے۔جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

حضرت محمد ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ کو یہ دعا سکھائی

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا، جو لوگ فجر کے بعد سوتے ہیں انکی قسمت میں کیا لکھا جاتا ہے؟