ہم نہ بھی کھانا چاہیں تو اللہ کھلا دیتا ہے
ہم نہ بھی کھانا چاہیں تو اللہ کھلا دیتا ہے۔ کہتے ہیں ایک ماں بیٹے میں مناظرہ چل رہا تھا۔ ماں کا موقف تھا کہ اللہ کھلاتا ہے تو ہم کھاتے ہیں۔ بیٹے کا کہنا تھا ہم کھاتے ہیں، اگر ہم نہ کھانا
چاہیں تو اللہ نہیں کھلا سکتا۔ اس مناظرے کے دوران ماں نے بیٹے کے آگے کھانا رکھ دیا تو بیٹے نے کہا، چلیں میں یہ آج رات والا کھانا نہیں کھا رہا، اللہ کھلا کر دکھا دے۔ ماں بیٹے کے پیچھے پڑ گئی۔ کہ پاگل نہ بن کھانا کھا لے
اور بیٹے نے ضد پکڑ لی۔ کہ میں نے نہیں کھانا اللہ کھلا کر دکھائے۔ ماں بیٹے کو بھوکا کہاں دیکھ پاتی ہے، اس نے اصرار شروع کیا تو بیٹا گھر سے نکال کر گاؤں کے ق-ب-ر-ست-ا-ن میں جا کے سو گیا۔ ماں نے ایک زبردست قسم کا خوشبودار حلوہ بنایا اور جا کر بیٹے سے کچھ فاصلے پر ایک ق-ب-ر پر اس خیال سے رکھ آئی
کہ رات کو بھوک سے جاگ گیا تو کوئی دیکھنے والا نہ ہوگا اور یہ کھا لےگا۔ رات کے آخری پہر ق-ب-ر-س-ت-ا-ن میں ڈ-ا-ک-و آگئے جو اس اس گاؤں کو لوٹنے کی غرض سے پہنچے تھے۔ وہ ق-ب-ر-س-ت-ا-ن میں رک کر سردار سے آخری ہدایات لے رہے تھے
کہ حلوے کی مہک نے سردار کو متوجہ کر لیا۔ ق-ب-ر-س-ت-ا-ن کی تلاشی لی گئی تو حلوہ اور وہ لڑکا دونوں برآمد ہوئے۔ سردار نے حلوہ کھانا چاہا تو “سانبھا” نے کہا، سردار! مجھے لگتا ہے اس حلوے میں ز-ہ-ر ملا کر رکھا گیا تھا تاکہ
ہم کھا کر مر جائیں اور یہ لڑکا جاسوسی کے لئے موجود تھا کہ ہمارے انجام کی خبر جا کر گاؤں والوں کو دے سکے۔ سردار نے سانبھا کی عقلمندی کی داد دی اور لڑکے سے کہا چل بچے حلوہ کھا! لڑکا تو ضد کئے بیٹھا تھا کہ آج رات کچھ نہیں کھائے گا، اس نے سختی سے انکار کیا تو سردار کا شک یقین میں بدل گیا اور اس نے گ-ن تان لی۔ لڑکے نے سر پر منڈلاتی م-و-ت دیکھی تو پوری پلیٹ چٹ کر گیا۔ ڈ-ا-ک-و کچھ دیر تک اسکے مرنے کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہ مرا۔ ڈ-ا-ک-و لڑکے کو ق-ب-ر-س-ت-ا-ن میں چھوڑ کر لوٹ گئے۔ فجر کی آذان کے ساتھ لڑکا خالی پلیٹ ہاتھ میں لئے منہ لٹکائے گھر میں داخل ہوا تو ماں نے پو چھا، بیٹا کیا ہوا؟ لڑکا بولا۔ ماں لمبا قصہ ہے، مجھے نیند آرہی ہے، بس خلاصہ یہ ہے کہ ہم نہ بھی کھانا چاہیں تو اللہ کھلادیتا ہے۔