محمد ﷺ کی 9 مبارک تلواریں ۔۔۔ یہ سب حضور ﷺ تک کیسے پہنچیں ؟ اور آجکل یہ کہاں ہیں ؟انتہائی ایمان افروز تحریر
نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی 9 مبارک تلواریں ۔ یہ سب حضور ﷺ تک کیسے پہنچیں؟ اور آجکل یہ کہاں ہیں ؟ انتہائی ایمان افروز تحریر
پیغمبر اسلام کےپاس نو تلواریں تھیں جن میں سے دو انہیں وراثت میں ملیں اورتین مال غنیمت میں حاصل ہوئیں۔ عضب آپ کو تحفے میں ملی تھی۔ ان نو میں آٹھ تلواریں ترکی کے شہر استنبول میں واقع توپ کاپی عجائب گھر میں محفوظ ہیں اورایک مصر کی ایک جامع مسجد میں موجود ہے۔پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کےخلاف آپریشن کا نام ’’ضرب عضب‘‘ پیغمبر اسلام کی
ایک تلوار کے نام پر رکھا۔زیر نظر مضمون میں پیغمبر اسلام کی تلواروں کا جائزہ لیا گیا ہے البتّار: یہ تلوار سرکارِ دو عالم نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے (بنو قینقاع ) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار کو (سیف الانبیاء ) نبیوں کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس تلوار پر حضرت داؤود علیہ السلام‘ سلیمان علیہ السلام‘ ہارون علیہ السلام‘ یسع علیہ السلام‘ زکریا علیہ السلام‘ یحییٰ علیہ السلام‘ عیسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسماء مبارکہ کنندہ ہیں۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کو اس وقت مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی جب ان کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔ اس تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہےجس میں حضرت داؤود علیہ السلام کو جالوت کا سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے جو اس تلوار کا اصلی مالک تھا۔تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بنا ہوا ہے جو’’ بترا‘‘ شہر کے قدیمی عرب باشندے (البادیون) اپنی ملکیتی اَشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ بعض روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہی وہ تلوار ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں واپس آنے کے بعد ’کانے دجال‘ کا خاتمہ کریں گے اور دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے۔ تلوار کی لمبائی 101 سینٹی میٹر ہے اور آجکل یہ تلوار ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر’ ’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔الماثور: یہ تلوار حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو
بنا ہوا ہے اور دونوں اطراف سے مڑا ہوا ہے۔ مزید خوبصورتی کیلئے اس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہوئے ہیں۔ تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر’ ’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔ الحتف: یہ تلوار بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کے
اپنے والد ماجد کی وراثت کے طور پر نبوت کے اعلان سے قبل ملی تھی۔ یہ تلوار ایک اور نام ’’ماثور الفجر‘‘ سے بھی مشہور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب یثرب کی طرف ہجرت فرمائی تو یہی تلوار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھی۔بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ تلوار بمع دیگر چند آلاتِ حرب حضرت علی علیہ السلام کو عطافرما دیئے تھے۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا
مبارک ہاتھوں سے بنی ہوئی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوہے کے سازوسامان خاص طور پر ڈھالیں‘تلواریں اور دیگر آلاتِ حرب بنانے میں خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی۔ حضرت داؤود علیہ السلام نے اس تلوار کو’ ’البتّار‘‘ سے ملتا جلتا لیکن سائز میں اْس سے بڑا بنایا۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس اپنے آباء و اجداد بنو اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی حتیٰ کہ
آخر میں یہ ہمارے پیارے نبی کے مبارک ہاتھوں میں مالِ غنیمت کے طور پر پہنچی۔ تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی 8 سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔ الذوالفقار: یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غزوہِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ تاریخی مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ
بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ تلوار حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرما دی تھی۔غزوہِ اْحد میں حضرت علی علیہ السلام اسی تلوار کےساتھ میدانِ جنگ میں اْترے اور مشرکینِ مکہ کے کئی بڑے بڑےسرداروں کو واصلِ جہنم کیا۔اکثر حوالے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ تلوار خاندانِ حضرت علی علیہ السلام میں باقی رہی۔اس تلوار کی وجہِ شہرت یا تو دو دھاری ہونے کی وجہ سے ہے
یا پھر اس پر بنے ہوئے ہوئے دو نوک نقش و نگار کی وجہ سے ہے اوریہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر’ ’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔ الرسّوب: یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکیتی 9 تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں یہ تلوار بالکل ویسے ہی محفوظ منتقل ہوتی رہی جس طرح ’’تابوت العہد‘‘ بنو اسرئیل میں خاندان در خاندان محفوظ رہا اور نسل در نسل منتقل ہوتا رہا۔ تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر
حضرت جعفر الصادق علیہ السلام کااسم گرامی کنندہ ہے۔ تلوار کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔ المِخذم: اس تلوار کے حوالے سےدو مختلف آراء سامنے آتی ہیں۔اول یہ تلوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمائی اور بعد میں اولادِ علی علیہ السلام میں وراثت کے طور پر
نسل در نسل چلتی رہی۔دوئم یہ تلوار سیدناعلی علیہ السلام کو اہلِ شام کے ساتھ ایک معرکے میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار پر’ ’زین الدین العابدین‘ ‘کے الفاظ کنندہ ہیں۔ تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے۔اور یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ’’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔ القضیب: یہ تلوارنحیف اور بہت کم چوڑائی والی ہے بلکہ اسی طرح جس طرح کسی تنگ راستے کی مثال دی جاتی ہے۔ یہ تلوار سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ دفاع یا رفیقِ سفر کے
طور پر تو ضرور موجود رہی مگر اس تلوار سے کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔تلوار پر چاندی کے ساتھ’ ’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب‘‘ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے الفاظ کنندہ ہیں۔ کوئی ایسا تاریخی حوالہ اس بات کی طرف اشارہ نہیں دیتا کہ تلوار کسی طور سے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ طیبہ میں کسی جنگ میں استعمال ہوئی۔ تلوار ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے
گھر میں موجود رہی لیکن فاطمیوں کے عہد خلافت میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا۔ تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی میان کسی جانور کی کھال کی بنی ہوئی ہے۔ یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِزمانہ عجائب گھر’’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔ العضب: یہ تلوار جس کے معنی ہیں تیز دھار والی‘حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے
صحابی سعد بن عبادہ الانصاری نے غزوہ اْحد سے قبل تحفہ دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اْحد والے دن یہی تلوار معروف صحابی ابو دجانہ الانصاری کو عطا فرما دی تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اْتر کر اللہ اور اْس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں پر اسلام کی قوت و عظمت کا مظاہرہ کریں۔آجکل یہ تلوار مصر کے شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی علیہما السلام میں
محفوظ ہے۔ القلعی: لفظ قلعی کا تعلق یا تو شام کے کسی علاقہ سے دکھائی دیتا ہے یا پھر ہندوستان اور چین کے کسی سرحدی علاقے سے ہے۔ جب کہ ایک طبقہ کے علماء یہ بھی دلیل دیتےہیں کہ کیونکہ قلعی ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے اس تلوار کی وجہ تسمیہ ہو سکتی ہے۔ یہ تلوار ان تین تلواروں میں سے ایک ہے جو ہمارے پیارے
نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے جنگ میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھیں۔ اس تلوار کے بارے میں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےدادا حضرت عبد المطلب نے اس تلوار اور سونے کے بنے ہوئے دو ہرنوں کو زمزم کے کنویں سے نکلوایا تھا جو قبیلہ جرہم الحمیریہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرالی قبیلے) نے
یہاں پر ایک زمانہ قبل دفن کئے تھے۔بعد میں حضرت عبد المطلب علیہ السلام نے اس تلوار کو بمعہ دیگر قیمتی سامان بیت اللہ میں حفاظت سے رکھوا دیا۔تلوار پر دستے کے قریب یہ الفاظ کنندہ ہیں (ترجمہ:یہ تلوار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھرانے کی عزت کی علامت ہے)۔ تلوار کی خوبصورت میان اسکودوسری تلواروں میں ایک نمایاں مقام دیتی ہے۔ تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کےمشہورِ زمانہ عجائب گھر ’’توپ کاپی‘‘استنبول میں محفوظ ہے۔