in

حضرت علی ؓ حضور ﷺ کی اما مت میں نماز پڑھتے ہو ئے نماز توڑ کر گھر چلے گئےوہ وقت جب تین جلیل القدر فرشتے جبرئیل ؑ ، مکائیلؑ اور اسرافیل ؑ کو بیک وقت حرکت میں آنا پڑ گیا ، ایمان افروز واقعہ

حضرت علی ؓ حضور ﷺ کی اما مت میں نماز پڑھتے ہو ئے نماز توڑ کر گھر چلے گئےوہ وقت جب تین جلیل القدر فرشتے جبرئیل ؑ ، مکائیلؑ اور اسرافیل ؑ کو بیک وقت حرکت میں آنا پڑ گیا ، ایمان افروز واقعہ

اسلام آباد ….)ایک دن حضور اکرم ﷺ نے نماز ِ عصر پڑھا ئی تو پہلا رکو ع اتنا طویل فر ما یا

کہ گمان ہوا کہ شاید رکو ع سے سر نہ اُٹھا ئیں گے۔ پھر جب آپ ﷺ نے رکو ع سے سر اُٹھا لیا نماز ادا فر ما لینے کے بعد آپ ﷺ نے اپنا رُخ اَنور محراب سے ایک جا نب پھیر کر فر ما یا کہ میرا بھائی اور چچا زاد علی بن ابو طالب کہاں ہے؟حضرت ِ علی ؓ نےآخری صفوں سے عرض کیا لبیک

! میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ﷺ ۔۔ آپ ﷺ نے فر ما یا اے ابو الحسن! میرے قریب آجاؤ چنانچہ حضرت ِ علی ؓ آپ ﷺ کے قریب آکر بیٹھ گئے آپ ﷺ نے فر ما یا ابو الحسن ! کیا تم نے اگلی صف کے وہ فضائل نہیں سنے جو اللہ عزوجل نے مجھے

بیان فر ما ئے ہیں؟عرض کیا: کیوں نہیں ، یارسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر ما یا پھر کس چیز نے تمہیں پہلی صف اور تکبیر اولیٰ سے دور کر دیا کیا۔ حسن اور حسین ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی محبت نے تمہیں مشغول کر دیا تھا؟ عرض کیا

محبت اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیسے رکاو ٹ ڈال سکتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا پھر کس چیز نے تمہیں روکے رکھا؟عرض کیا کہ جب حضرت ِ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان دی تھی میں اس وقت مسجد ہی میں تھا اور دو رکعتیں ادا کی تھیں پھر جب حضرت ِ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ

نے اقا مت کہی تو میں آپ ﷺ کے ساتھ تکبیر اُولیٰ میں شامل ہوا۔ پھر مجھے وضو میں شبہ ہوا تو میں مسجد سے نکل کرحضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر چلا گیا اور جا کر حسن و حسین ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) کو پکارا مگر کسی نے میری پکار کا جواب نہ دیا تو میری حالت

میں عورت کی طرح ہو گئی جس کا بچہ گم ہو جا تا ہے۔ یا ہانڈی میں ابلنے والے دانے جیسی ہو گئی میں پانی تلاش کر رہا تھا۔کہ مجھے اپنے دائیں جانب ایک آواز سنائی دی اور سبز رومالسے ڈھکا ہوا سونے کا پیالہ میرے سامنے آ گیا میں نے رومال ہٹا یا تو اس میں دود ھ سے زیادہ سفید ، شہد

سے زیادہ میٹھا اور مکھن سے زیادہ نرم پانی موجود تھا۔ نماز کے لیے وضو کیا پھر رو ما ل سے تری صاف کی اور پیالے کو ڈھا نپ دیا۔پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا نہ ہی مجھے یہ معلوم ہو سکا کہ پیالہ کس نے رکھا

اور کسنے اٹھا یا!آپ ﷺ نے مسکرا کر ارشاد فر ما یا: مر حبا! مر حبا! اے ابو الحسن ! کیا تم جا نتے ہو تمہیں پا نی کا پیالہ اور رو مال کس نے دیا تھا۔عرض کی اللہ اور اس کے رسول عزوجل ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد فر ما یا: پیالہ تمہارے پاس جبر ئیلِ امین علیہ السلام لے کر آ ئے ۔ اور اس میں حظیرۃ القدس کا پانی تھا اور رومال تمہیں

حضرت ِ میکا ئیل علیہ السلام نے دیا تھا۔ حضرتِ اسرافیل ؑ نے مجھے رکوع سے سر اٹھانے سے روکے رکھا یہاں تک کہ تم اس رکعت میں آکر مل گئے۔اے ابو الحسن! جو تم سے محبت کر ے گا اللہ عزوجل اس سے محبت کر ے گا اور جو تم سے بغض رکھے گا اللہ عزوجل اسے ہلا ک کر دے گا۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

موجودہ انصافی جب گئے تو اسکے بعد انکا نام و نشان بھی نہیں ملے گا ۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان