امیر ملک ہونے کے باوجود ’پاکستان‘ غیر ملکی قرضوں کے سہارے کیوں چل رہا ہے ؟حیرت انگیز دعویٰ
امیر ملک ہونے کے باوجود ’پاکستان‘ غیر ملکی قرضوں کے سہارے کیوں چل رہا ہے ؟حیرت انگیز دعویٰ
کراچی (نیوز ڈیسک ) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ پاکستان ایک امیر ملک ہونے کے باوجود غیر ملکی قرضوں کے سہارے چل رہا ہے کیونکہ اسکی معیشت غیر پیداواری ہے۔غیر پیداواری شعبوں میں منافع پیداواری شعبوں سے بہت زیادہ ہے اس لئے سارا سرمایہ وہیں لگ رہا ہے اور ملک محتاج ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے
بعد آزاد ہونے والے ممالک اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے ہیں کیونکہ انھوں نے پیداوار اور برامدات کو توجہ دی ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ اشرافیہ کبھی بھی پاکستان کے پیداواری شعبہ کو ترقی نہیں کرنے دے گی کیونکہ انکے مفادات غیر پیداواری شعبہ سے وابستہ ہیں۔انھیں سبسڈی، پیکچز اور ایمنسٹی سکیموں کی لت لگ چکی ہے جسے چھڑانا مشکل ہے۔
1998 میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چار سو ملین ڈالر تک گر گئے تھے مگر اسکے باوجود معیشت کو بہتر بنانے کی کوئی حقیقی کوشش نہیں کی گئی اور اب صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ ملک چلانا مشکل ہو گیا ہے
۔ اس وقت ملکی بقاء دائو پر لگی ہوئی ہے مگر دودھ، لسی، پنیر، شہد، چاکلیٹ، پھل، سبزی، مشروبات،مچھلی، تمباکو، سگریٹ حتیٰ کہ کتوں اور بلیوں کی خوراک بھی درامد کی جا رہی ہے۔غیر ضروری درامدات پر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے جس کی وجہ سے صنعتی خام مال اور مشینری کی درامدات متاثر ہو جاتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب تک اہم پالیسیاں ملک پر راج کرنے والی صنعتی و زرعی اشرافیہ کے مفادات کے مطابق بنتی رہیں گی ملک کو چلانے کے لئے قرضے لینا پڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایک سیاسی ٹولے نے ملکی معیشت کو تباہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور اب اختیار ختم ہونے کے باوجود ملکی معیشت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔