اوریا مقبول جان کی ایک خصوصی تحریر
نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔گذشتہ پچاس سالوں میں امریکہ نے خود کو اس قدر دُنیا کے ممالک میں پھیلا لیا ہے کہ اب اسے کسی ملک پر بہت کم ہی براہِ راست دھاوا بول
کر کے حکومت بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس نے دُنیا بھر کے ممالک میں اپنے غلام، ٹوڈی، کاسہ لیس، بِکائو اور غدار خرید رکھے ہیں۔ امریکہ کی یہ سرمایہ کاری تین طبقات میں ہے۔ سیاست دان یا اہم سیاسی گروہوں کے قائد، صحافی اور اس ملک کی افواج۔ ان تینوں کو مراعات دینے، سرمایہ فراہم کرنے اور
خریدنے کے لئے الگ الگ پروگرام ترتیب دیئے ہوئے ہیں اور الگ لائحہ عمل ہیں ۔ افواج کو پہلے ہتھیاروں کی سپلائی اور فوجی سازوسامان کی مدد کے ذریعے غلامی کی لَت کا شکار کر کے، اسے امریکی محبت کے سرور میں گرفتار کیا جاتا ہے اور اس کی افواج یہ سمجھنے لگتی ہیں کہ ہم امریکی ہتھیاروں کے بغیر بے کار ہیں۔ سیاست دانوں کو امریکی سفارت
کار اپنے دامِ محبت میں گرفتار کرتے ہیں، ان کے لئے لاتعداد دورے اور آئو بھگت ہوتی ہے، اور تیسرا گروہ صحافیوں کا ہے جو بیچارے مفلوک الحال ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تھوڑے سے ڈالروں پر اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں۔ امریکہ کا حکومتوں کو بدلنے کا مشن ہمیشہ خفیہ طور پر بِکائو صحافیوں کی پروپیگنڈہ مہم سے شروع ہوتا ہے، اس میڈیا کی مہم کی چھائوں میں سیاست دانوں کو حکومتوں کے خلاف تیار کیا جاتا ہے اور پھر آخر کار اس ملک کی
افواج کو ملک کی سلامتی کے نام پر مداخلت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چلّی اور جنوبی ویت نام اس کی بدترین مثالیں۔ چلّی جنوبی امریکہ کا سب سے پُر امن ملک تھا، جہاں شرح خواندگی بہت زیادہ تھی، ایک بڑی تعداد مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی، لیکن ملک میں غریب عوام کی بھی کمی نہ تھی۔ چلّی کے عوام کی بدبختی اور شامت اس دن سے شروع ہوئی جب انہوں نے اپنی حالت بدلنے کے لئے ایک غیرت مند اور باوقار سیاسی رہنماء آلندے کو منتخب کر لیا۔ وہ چلّی کی تاریخ کا سب سے مقبول لیڈر تھا۔
اس نے جیت کے بعد اعلان کیا کہ اگر چلّی میں موجود تانبے کی کانوں پر دو امریکی کمپنیوں اینا کونڈا (Anaconda) اور کینوکوٹ (Kennecoat) کا قبضہ ختم کر کے اسے قومی ملکیت میں لے کر اس کی تجارت سے حاصل کردہ دولت مستحق عوام میں تقسیم کی جائے، ان کے لئے پروگرام بنائے جائیں تو چلّی سے غربت بالکل ختم ہو جائے۔ اس کا یہ اعلان امریکیوں کو مشتعل کرنے کے لئے کافی تھا۔ امریکیوں کے نزدیک دو گناہ ناقابلِ معافی ہیں پہلا یہ کہ آپ اپنے عوام کے دلوں میں بستے ہوں اور دوسرا یہ کہ آپ خوددار اور غیرت مند ہوں۔