’’ مجھے اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک کسی کی جان نہ لے لو ں ۔۔۔!!!‘‘ سینکڑوں پولیس افسران کو ختم کرنے والا فہیم کمانڈو کون تھا اور یہ ایسا کیوں کرتا تھا؟
’’ مجھے اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک کسی کی جان نہ لے لو ں ۔۔۔!!!‘‘ سینکڑوں پولیس افسران کو ختم کرنے والا فہیم کمانڈو کون تھا اور یہ ایسا کیوں کرتا تھا؟
لاہور(ویب ڈیسک) 90کی دہائی کو سندھ میں قتل و غارت، تشدد اور بدامنی کی دہائی تصور کیا جاتا ہے جبکہ اس کی چند بڑی مثالیں 80کی دہائی کےاو اخر میں سامنے آگئی تھیں۔ اِس سلسلے میں سانحہ ستمبر 1988کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جب حیدر آباد شہر خون میں نہلا دیا گیا۔یاد رہے کہ اُس وقت بےنظیر بھٹو کی
نامور کالم نگار مظہر برلاس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔!!!حکومت نہیں تھی۔ اس سے قبل حیدر آباد ہی میں جی ایم سید اور ایم کیو ایم کا مشترکہ جلسہ ہوا تھا جس میں یہ نعرہ لگایا گیا تھا:سندھی مہاجر بھائی بھائی۔۔۔۔۔حقہ نسوار کدھر سے آئی۔۔۔۔۔مگر اِس بھائی چارے کے باوجود جب ستمبر 1988کو سانحہ حیدر آباد ہوا تو اگلے دن جواباً کراچی میں بیسیوں سندھیوں کو ہمیشہ کیلئے سلا دیا گیا۔ ان وارداتوں کے پس پردہ کون تھا؟ ان کے کیا مقاصد تھے اور کیوں ایسا کیا گیا؟ ان سوالوں کے جواب تاریخ دے گی۔سندھ میں ہونے والا فوجی آپریشن بڑا مشہور ہے۔ یہ آپریشن مئی 1992میں اس وقت شروع ہوا جب جنرل آصف نواز جنجوعہ فوج کے سربراہ تھے جبکہ نواز شریف ملک کے وزیراعظم مگر اس سے پہلے ایک آپریشن مئی 1990میں کیا گیا۔ یہ آپریشن دراصل ایک پولیس آپریشن تھا۔ مئی 1990میں ہونے والے اس آپریشن کوعام طور پر پکا قلعہ آپریشن بھی کہا جاتا ہے۔ 80کی دہائی کےاو اخر میں حیدر آباد اور کراچی میں جتنے لوگ بھی قتل ہوئے، ان میں سے اکثریت بےگناہ شہریوں کی تھی، خواہ ان کا تعلق اردو یا سندھی بولنے والوں سے تھا مگر یہ سچ ہے کہ یہ فسادات لسانی بنیادوں پر ہوئے۔اب ان واقعات کی ترتیب اس طرح ہوئی کہ ستمبر 1988میں سانحہ حیدر آباد ہوا، مئی 1990میں آپریشن پکا قلعہ ہوا اور پھر مئی 1992میں سندھ میں فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔ پہلے پہل یہ آپریشن سندھ کے دیہی علاقوں میں شروع کیا گیا مگر پھر ٹنڈو بہاول میں ایک ایسا دلخراش واقعہ پیش آیا کہ
جس میں ایک ہی خاندان پر قیامت برپا کردی گئی، جب بےگناہوں کے قتل کی آواز گونجی تو آپریشن کا رُخ شہروں کی طرف موڑ دیا گیا۔ آپریشن کا مرکز کراچی بن گیا جہاں ایم کیو ایم کی کوکھ سے ایم کیو ایم حقیقی برآمد ہو چکی تھی۔ آفاق احمد اور عامر خان حقیقی کے رہنمائوں کے طور پر سامنے آ چکے تھے۔ 90کی پوری دہائی کراچی خون میں لت پت رہا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بےبس نظر آئے۔ جب 1992کا فوجی آپریشن شروع ہوا تو نواز شریف کے دو ساتھیوں چودھری نثار علی خان اور غلام حیدر وائیں نے پریس کانفرنس کردی جس کا مطلب تھا کہ اس آپریشن کی منظوری وفاقی حکومت سے نہیں لی گئی۔ اس بات پر پنڈی سے ناگواری کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ایک طرف آپ آپریشن شروع کرواتے ہیں اور دوسری طرف اس طرح کی پریس کانفرنس ہوتی ہے تو یہ دوعملی درست نہیں۔ خیر اس آپریشن کے وہ نتائج برآمد نہ ہو سکے جو ہونے چاہئے تھے۔ اس آپریشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز 1995میں ہوا، اس کے نتائج بڑے شاندار رہے۔ اس آپریشن کی نگرانی اس وقت کے وزیر داخلہ کی سربراہی میں ڈاکٹر شعیب سڈل کر رہے تھے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل پہلے پاکستانی پولیس افسر تھے جنہوں نے ایک برطانوی یونیورسٹی سے کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی۔جب 1995میں آپریشن کا آغاز ہوا تو اس سے پہلے حالات یہ تھے کہ پولیس اہلکار وردی نہیں پہن سکتے تھے، تھانوں پر دہشت گرد حملے کرتے تھے، عام شہریوں
.
کو مارا جا رہا تھا، پورے کراچی میں خوف کی لہر تھی، ہر طرف موت بکھری پڑی تھی۔ پولیس کے لیے کام کرنااس قدر مشکل تھا کہ تھانوں کے باہر مورچے بنائے گئے تھے، ریت کی بوریاں رکھ کر حفاظتی بندوبست کیا گیا تھا۔ سندھ پولیس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں 1991سے لے کر 2014تک دو ہزار سے زائد پولیس اہلکار اور افسر گھات لگا کر ہدف بنائے گئے۔ ان میں سے 451اہلکار اور افسر تو صرف کراچی آپریشن کی نذر ہوئے۔ دہشت کے اس ماحول میں جاوید لنگڑا کا نام بھی اہم تھا، ایک نام فہیم کمانڈو کا تھا جو کہتا کہ …’’ مجھے اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک کوئی قتل نہ کر لوں…‘‘ ایک ایس ایچ او بہادر علی کو ساتھیوں سمیت قتل کرنے والوں میں فہیم کمانڈو شامل تھا اور فہیم کمانڈو کے بقول قتل کے احکامات لندن سے آتے تھے۔ اسی لیے بہادر علی کے صاحبزادے پولیس ایس پی عرفان بہادر کو کہنا پڑا کہ …’’ہمارے جیسے خاندانوں نے اس بدقسمت شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی…‘‘ ایم کیو ایم کےقتل ہونے والے سیکرٹری مالیات ایس ایم طارق کے صاحبزادے ایس ایم تابش کے بقول …’’کراچی کی 30،35برس کی پُرتشدد سیاست کے سب سے بڑے ذمہ دار خود بانی ایم کیو ایم اور اُن کی جماعت ہے اور میرا خیال ہے بنیادی ذمہ داری جس پر عائد کی جا سکتی ہے وہ خود ایم کیو ایم اور اس کی اندرونی چپقلش ہے…‘‘جنرل بابر کی قیادت میں جو آپریشن ہوا اس سے کراچی کے حالات بہت حد تک معمول پر آگئے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے پولیس کا مورال بلند کیا۔ کراچی پولیس کے اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل نے اسی دوران دعویٰ کیا کہ مارچ 1996سے لے کر جون 1996تک شہر میں قتل و غارت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ جب کراچی میں ہرطرف خوف اور تشدد کی لہر تھی تو ایسے میں حکیم سعید مرحوم اور نصرت مرزا جیسے لوگوں نے اہل کراچی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر ان تمام کوششوں پر لندن سے آنے والی کالز پانی پھیر دیتی تھیں۔ حکیم سعید کو تو قتل ہی کر دیا گیا۔ اردو بولنے والوں کے بزرگ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ ایم کیو ایم کے بانی نےپڑھنے لکھنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھماکر ظلم کیا۔